آخری حصہ
ضیاء الرحمن چترالی
سعودی حکومت کی جانب سے ارنائوڈ فانڈورن کو تمام تاریخی مقامات کی سیر کرائی گئی۔ اس دوران وہ میدان بدر بھی گئے اور شہدائے بدر کی مبارک قبور پر دیر تک کھڑے ہو کر روتے رہے اور کہا کہ میں نے زندگی بھر حضور اکرمؐ کے صحابہؓ کی برائی بیان کی اور انہیں شدت پسند اور جنگجو قرار دے کر ہالینڈ میں سیاسی مفادات سمیٹتا رہا، اگر حق تعالیٰ کا مجھ پر خصوصی کرم نہ ہوتا تو میں تباہ ہو جاتا۔
میدان بدر کے بعد انہیں مسجد قبا اور بعد ازاں انہیں تبرکاتِ نبویہ پر مشتمل اسلامی میوزیم کی سیر کرائی گئی۔ ارنائوڈ فانڈورن نے کہا کہ جب تک میں اسلام سے متعلق مکمل آگاہی حاصل نہیں کروں گا، واپس اپنا ملک نہیں جائوں گا، شہر مقدس میں رہ کر اسلامی تعلیمات سیکھنے کے بعد ساری زندگی اسلام کی تبلیغ اور نشرو اشاعت کے لیے وقف کردوں گا۔ انہوں نے مسلمانوں سے شکوا کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پاس دین اسلام کی صورت میں اتنی قیمتی دولت ہے، مگر تم بہت زیادہ بخل سے کام لے رہے ہو، پوری دنیا اس آب حیات کی پیاسی ہے۔ مگر تم نے اسے اپنے پاس سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔
ارنائوڈ فانڈورن نے اپنے اسلام قبول کرنے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جب سے میں نے اسلام کے خلاف بننے والی فلم ’’فتنہ‘‘ میں کام کیا، اس کے بعد مجھے کبھی روحانی سکون نہیں ملا، میں اندر ہی اندر تڑپتا رہا، راتوں کی نیندیں اڑ گئیں اور دن کا قرار چھن گیا، جس کے بعد میں نے اسلام کے بارے میں مطالعہ شروع کر دیا، اس سلسلے میں میرے ایک مسلم دوست نے میری رہنمائی کی اور مجھے مفید مشورے اور اسلامی کتابیں دیتا رہا۔
تقریباً 4 سال تک مسلسل غور وفکر اور مطالعے کے بعد میں اس نتیجے تک پہنچا کہ دنیا میں اگر کوئی مذہب برحق ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ جس کے بعد نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن ہالینڈ میں، میں نے اپنے مسلم دوست کے علاوہ کسی کے سامنے اس کا اظہار نہیں کیا تھا، میں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس سرزمین میں جاکر اسلام کا اعلان کروں گا جہاں سے اسلام کا نور چار دانگ عالم میں پھیلا تھا۔ واضح رہے کہ ارنائوڈ فانڈورن ہالینڈ کی کٹر اسلام مخالف سیاسی جماعت ’’فریڈم پارٹی‘‘ کے سینئر رہنما اور سابق رکن پارلیمان ہیں۔ فریڈم پارٹی کا سربراہ گیرٹ ولڈز نے 2008ء میں اسلام کے خلاف ایک فلم ’’فتنہ‘‘ بنائی تھی، جس سے پوری دنیائے اسلام میں ایک طوفان برپا ہوگیا تھا، اس فلم کی تیاری میں ارنائوڈ فانڈورن نے بھی بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم اب حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد انہوں نے بقیہ زندگی اسلام کے لیے وقف کردی ہے۔
اس کے بعد ارنائو کے بیٹے پر بھی دین حنیف کی حقانیت کھل گئی اور حق تعالیٰ نے انہیں بھی ہدایت عطا فرمائی۔ وہ دبئی میں کلمہ شہادت پڑھ کر دائرئہ اسلام میں داخل ہوئے۔ قبول اسلام کے بعد ارنائو کے بیٹے کا نام سکندر امین رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نئے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے والد کی ساری ٹینشن اور ذہنی پریشانیاں ختم ہوگئیں، اس لئے انہیں احساس ہوا کہ یہ مذہب میں کوئی ایسی خوبی ضرور ہوگئی، جس نے میرے والد کو پرسکون بنا دیا۔ اس سے قبل سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے خلاف تحریک چلانے والے ایک انتہا پسند سیاست دان نے بھی اسلام قبول کیا ہے اور انہوں نے بھی اپنی بقیہ زندگی مساجد کی تعمیر کے لیے وقف کردیا ہے، جو کہ اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے۔(بحوالہ: روزنامہ البیان، متحدہ عرب امارات)
Prev Post
Next Post