عصمت و عفت کی حفاظت کا انعام

0

حصہ اول
عبدالمالک مجاہد
ایک عورت غیر معمولی خوبصورت تھی۔ اس کی شادی ایک بڑے اچھے شخص کے ساتھ ہو گئی۔ دونوں بہت خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے۔ کچھ عرصہ گزرا، اس عورت کے خاوند کو کاروبار کے لیے کسی دوسرے شہر کا سفر در پیش تھا، کسی وجہ سے وہ اپنی بیوی کو اپنے ہمراہ نہیں لے جا سکتا تھا۔ خاوند کا چھوٹا بھائی اس کے ساتھ ہی اسی گھر میں رہتا تھا۔ پہلے تو اس نے سوچا کہ اپنی بیوی کو کسی قریبی دوست کے گھر میں چھوڑ جاتا ہوں۔ جوان اور غیر معمولی خوبصورت بیوی کا اکیلے گھر میں رہنا مناسب نہیں۔ پھر اسے خیال آیا کہ میرا اپنا سگا بھائی بھی تو گھر میں موجود ہے۔ اس کی موجودگی میں بیوی کو کسی کے گھر چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ میری بیوی کو تو تحفظ درکار ہے۔ وہ اکیلی تو نہیں، اس کے بھائی کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔
عورت کے خاوند نے سفر سے پہلے اپنے بھائی کو بلایا اور کہا: مجھے ضروری کام سے دوسرے شہر جانا ہے۔ میرے جانے کے بعد تمہاری بھابھی اکیلی ہے، اس کا خیال رکھنا۔ بھائی نے اسے تسلی دی کہ کوئی فکر نہ کرو، اطمینان سے سفر پر جاؤ۔ حسب پروگرام وہ تو سفر پر روانہ ہو گیا، مگر یہ بھول گیا کہ رسول اقدسؐ کی حدیث ہے کہ دیور تو موت کی طرح ہے۔ لیکن میں اپنے گھر میں جوان مرد اور عورت چھوڑ آیا ہوں۔
چند دن گزرے چھوٹے بھائی پر شیطان غالب آ گیا، اس نے اپنے بھائی کی عزت پر ڈاکہ ڈالنا چاہا۔ اپنی بھابھی کو ورغلانے کی کوشش کی، مگر وہ خاتون عفت مآب اور خدا کا خوف رکھنے والی تھی۔ اس نے اپنے دیور کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگی: خدا کا خوف کرو، میں تمہارے بھائی کی عزت ہوں۔ تم اپنے بھائی اور خدا کو کیا جواب دو گے؟ اپنے بھائی کے ساتھ خیانت نہ کرو، مگر اس پرتو شیطان سوار تھا۔ عورت نے اس کے ہزار بار ورغلانے کے باوجود اس کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا۔
اسی دوران خاوند کے واپس آنے کا وقت ہو گیا۔ چھوٹے بھائی کو جہاں اس بات کا رنج تھا کہ اس کی بھابھی نے اس کی بات نہیں مانی، وہیں اسے اس بات کا بھی ڈر تھا کہ اگر بھابھی نے میرے بھائی کو میری کرتوت سے آگاہ کر دیا تو میری خیر نہیں۔
دیور نے ایک سازش تیار کی، جیسے ہی اس کا بھائی گھر واپس آیا، اس نے اسے جھوٹی کہانی سنا دی کہ تمہاری بیوی کوئی اچھی عورت نہیں۔ تمہاری عدم موجودگی میں اس نے میرے اوپر ڈورے ڈالے تھے۔ یہ تو میں ہی اچھا تھا جو اس کے چنگل سے بچ گیا۔ عورت کے خاوند کو سخت غصہ آیا۔ اس نے بیوی سے پوچھے بغیر اور کسی تحقیق سے پہلے ہی اپنے بھائی کی بات پر یقین کر لیا۔ بیوی کو تین طلاق دے کر کہا: جاؤ ابھی میرا گھر چھوڑ دو۔ بیوی نے بڑی منت سماجت کی، مگر اس نے ایک نہ سنی۔ عورت کے والدین وفات پا چکے تھے۔ میکے میں بھی کوئی نہ تھا، جو اسے پناہ دیتا۔ خاوند نے طلاق دے کر گھر سے نکالا تو وہ خدا کا نام لے کر ایک طرف نکل کھڑی ہوئی۔ اسے اپنے رب پر بھروسہ تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بے قصور ہے، رب اس کی ضرور مدد کرے گا۔ راستے میں ایک بڑے عابد کی کٹیا نظر آئی تو اس نے اس نیک متقی اور عابد شخص کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس نیک آدمی نے دروازہ کھولا، عورت نے اپنی دکھ بھری کہانی سنائی۔ عابد کہنے لگا: کوئی فکر نہ کرو، میرا ایک چھوٹا سا بیٹا ہے۔ اس کی پرورش کے لیے مجھے ایک عورت کی ضرورت ہے۔ تم میری کٹیا کے ساتھ والے کمرے میں رہو اور میرے بچے کی دیکھ بھال کرو۔ فکر نہ کرو تم یہاں محفوظ ہو۔ کھانے اور رہائش کے ساتھ میں تمہیں مناسب اجرت بھی دیا کروں گا۔
عورت کو تحفظ اور گھر چاہیے تھا، اس نے موافقت کر لی اور عابد کے بیٹے کی پرورش شروع کر دی۔
کچھ عرصہ گزرا، یہ عابد کسی کام کے لیے اپنی کٹیا سے باہر گیا تو اس کے خادم نے عورت کو بہکانا شروع کر دیا۔ خاتون نے سختی سے انکار کیا، اسے خدا کا خوف دلایا، مگر خادم پر بھی شیطان سوار تھا۔ دونوں گھر میں اکیلے تھے، تیسرا کوئی شخص نہ تھا۔
قارئین کرام! رسول اکرمؐ کی حدیث ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: کوئی غیر محرم عورت اور مرد اگر کسی جگہ اکیلے ہوتے ہیں تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ جب عورت نے اس کی بات نہ مانی تو خادم نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں اس بچے کو قتل کر دوں گا اور اس کے باپ سے کہوں گا کہ تم نے اس کے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ عورت نے پھر بھی بات نہ مانی تو خادم نے بچے کو قتل کر دیا۔ جب عابد گھر آیا تو خادم نے اس کو بتایا کہ تمہاری عدم موجودگی میں اس عورت نے تمہارے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ عابد کو شدید غصہ آیا کہ اس نے ناحق میرے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ وہ خدا کا خوف رکھنے والا انسان تھا، چند گھنٹوں بعد اس کا غصہ اتر گیا اور نجانے اس کے دل میں کیا آیا کہ اس نے عورت کو بلایا اور کہنے لگا: جاؤ میں نے تمہیں خدا کے لیے معاف کر دیا ہے۔ عورت نے بڑی کوشش کی کہ وہ اس کی بات تو سنے، مگر عابد نے اس کی ایک نہ سنی۔ تاہم اس نے دو دینار اپنی جیب سے نکالے اور کہنے لگا: تم نے تو مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے، مگر میں تمہارے اوپر ظلم نہیں کروں گا۔ تم نے میرے بیٹے کی جو خدمت کی ہے یہ اس کا معاوضہ ہے، مگر اب تم فوراً میرا گھر چھوڑ دو۔
قارئین کرام! حق تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں سورۃ آل عمران میں فرمایا ہے:
ترجمہ: ’’غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے، خدا تعالیٰ ایسے محسنین سے محبت فرماتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More