میں نے کہا کہ ’’کریم! تم مسلمان تو ہو گئے ہو، لیکن شراب اور سور کھانا بھی چھوڑا ہے یا نہیں؟‘‘
وہ کانوں کو چھو کر استغفار کہتا اور جواب دیتا: ’’یارو! میری بیوی اگر دوسرے کسی مسلم ملک کی ہوتی تو شاید مجھے نہ سدھار سکتی، لیکن ملئی عورتوں کے لیے مشہور ہے کہ وہ پیار، محبت اور دلیل سے اپنے شوہر کو راہ راست پر لے آتی ہیں۔‘‘
’’اور کیپٹن کریم! تم اس کی وجہ سے ملئی زبان بھی سیکھ گئے؟‘‘
’’یار تم لوگ میری بیوی کو میرا ہیڈ ماسٹر نہ بنائو۔‘‘ کیپٹن کریم کہتا۔ ’’ہر بات کا کریڈٹ اسے مت دو۔ میں نے ملاکا پہنچ کر پہلے تین مہینوں میں ملئی زبان سیکھ لی تھی، اس وقت میری یہ بیوی نہ جانے کہاں تھی، شاید کوالالمپور کی یونیورسٹی میں گریجویشن کررہی تھی۔ یہاں آنے کے تین سال بعد میری اس سے شناسائی ہوئی تھی اور بعد میں ہماری شادی ہوگئی۔‘‘
بہرحال لورپول (انگلینڈ) کے اسمارٹ اور گبرو انگریز کیپٹن کے ملائیشیا آنے اور ایک ملئی لڑکی سے ہونے والے عشق کی داستان اور پھر ان کی شادی کی کہانی آئندہ کے صفحات پر بیان کریں گے۔ یہاں ہم علی کا ذکر کررہے تھے، اس نے بھی ایک ملئی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ کیا تھا اور آج وہ اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ ہمارے گھر رات کا کھانا کھانے آرہا تھا۔
وہ طے شدہ وقت پر اپنی بیوی کے ساتھ ہمارے گھر آیا۔ ہم نے انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا، علی کی بیوی نہ صرف پاکستانی لباس شلوار سوٹ میں ملبوس، صاف اردو بول رہی تھی، بلکہ وہ شکل صورت کے لحاظ سے بھی ہم جیسی تھی… یعنی جیسے ہم برصغیر کے لوگ ہیں۔ ملئی لوگوں کے نین نقش جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں تھائی لینڈ، انڈونیشیا، کمپوچیا اور فلپائن کے لوگوں سے ملتے جلتے ہیں۔
علی نے بتایا کہ وہ پندرہ دن قبل کراچی پہنچا تھا اور پچھلے ہفتے اس کی یہیں کراچی میں شادی ہوئی ہے۔ ہم نے اس کے ملائیشیا جانے کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ فی الحال یہیں سے ڈاکومنٹس تیار کرانے کی کوشش کرے گا۔
ہم اس کی دلہن کے سامنے اس سے نہ پوچھ سکے کہ کیا اسے ملائیشیا سے نکلنا پڑا تھا اور یہ بھی نہ پوچھ سکے کہ اس ملئی لڑکی کا کیا ہوا، جس کے ساتھ وہ شادی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ظاہر ہے ہر انسان کے ساتھ اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں، ہر انسان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے۔ کسی سے انتہائی نجی اور ذاتی قسم کی باتیں دریافت کرنا مناسب بھی نہیں ہے۔ ہاں، اگر وہ کوئی قدم اٹھانے سے قبل ہم سے مشورہ طلب کرتا یا اس سلسلے میں کوئی بات کرتا تو پھر ہم ضرور اس سے پوچھتے، اب تو جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ علی کی تمام باتیں، اس کے کام اور شخصیت کے لحاظ سے بھی وہ ہمیں پسند تھا، لیکن اس کا یہ قدم ہمیں بہت عجیب معلوم ہوا۔ علی ایسا آدمی تو نہیں ہے، بہرحال دوسرے تیسرے مہینے ای میل کے ذریعے ہماری علیک سلیک ہوتی رہی۔ جس سے معلوم ہوا کہ وہ واپس ملائیشیا چلا گیا ہے، چند ماہ کے بعد اس نے اپنی بیوی کو بھی بلوا لیا۔
جیسا کہ عورتوں میں تجسس بہت ہوتا ہے، میری بیوی کو بھی یہ معلوم کرنے کی بڑی فکر تھی کہ علی کیا کر رہا ہے۔ ملائیشیا میں ایک طویل عرصہ رہائش کے سبب ہمیں یہ معلوم تھا کہ اس ملک میں رہائش اختیار کرنا آسان ہرگز نہیں ہے۔ بہرحال معلوم حالات کے مطابق ہم نے یہ اندازہ لگایا کہ شاید علی نے ملئی لڑکی کے ساتھ شادی کر کے PR حاصل کیا اور پھر اسے طلاق دیدی، بعد میں اس نے پاکستانی لڑکی سے شادی کی۔
کئی ملکوں میں ہمارے ہم وطن اس غلط کام کے حوالے سے بدنام ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ علی نے اس ملئی لڑکی سے شادی کی ہی نہ ہو۔ پورے ملائیشیا میں بھٹکنے کی وجہ سے ممکن ہے کسی ایسے ملئی افسر، اثرورسوخ رکھنے والے بزنس مین یا سیاست دان کے ساتھ اس کے تعلقات ہو گئے ہوں، جس نے اسے دوستی میں یا رشوت لے کر غیر قانونی طور پر ملائیشیا کا شناختی کارڈ (PR) بنوا دیا ہو، حالانکہ آج کے دور میں یہ ناممکن حد تک مشکل کام ہے۔ آج سے چالیس برس پیشتر، جب میں پہلی مرتبہ ملائیشیا گیا تھا… اس وقت یہ کام کسی حد تک ممکن تھا، لیکن ان ایام میں ہمارے ملک کا کوئی فرد ملائیشیا میں رہنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ اس زمانے میں پاکستان اور انڈیا، ملائیشیا سے زیادہ ماڈرن اور خوش حال ملک سمجھے جاتے تھے۔ کسی کا دماغ اس حد تک خراب نہیں ہوا تھا کہ وہ بلاوجہ پاکستان کو چھوڑ کر مچھروں، سانپوں، دلدل اور برسات والے ملک میں جاکر رہے۔ ان دنوں میں نہ تو ہمارے ملک میں مہنگائی تھی اور نہ بے روزگاری، ہم ملائیشیا، سنگاپور اور کوریا جیسے کئی ملکوں سے زیادہ ماڈرن اور خوش حال تھے۔ ٭
Prev Post
Next Post