مسعود ابدالی
یہ بات شاید تیل کی صنعت سے وابستہ احباب کو اچھی نہ لگے، لیکن پاکستان اور تیل درآمد کرنے والے ممالک کو یہ جان کر یقیناً اطمینان ہوگا کہ API اور توانائی سے متعلق معلومات کے امریکی ادارے EIA نے تیل کی قیمتوں میں کمی کا حالیہ رجحان جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ اس پیش گوئی کی کئی وجوہات ہیں، جس میں ایک تو یہ کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے چھیڑی جانے والی تجارتی جنگ نے ساری دنیا میں غیر یقینی صورت حال پیدا کر دی ہے، جس کی وجہ سے صنعتی ممالک خاص طور سے چین، جاپان اور جنوبی کوریا کی معیشت کی شرح نمو میں اگر کمی نہ ہو، تب بھی اس میں اضافے کا کوئی امکان نہیں، جس کی وجہ سے تیل کی کھپت میں معمولی سی کمی دیکھی جا رہی ہے۔
تاہم بڑی وجہ امریکہ کی جانب سے ایرانی تیل پر پابندی ہے، جس کا اطلاق اتوار آج پانچ نومبر سے شروع ہوگیا۔ چند ماہ پہلے امریکی وزارت اقتصادیات نے دنیا بھر کے بینکوں کو ایک تنبیہ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر کسی بھی بینک نے L/C کھولنے یا ایرانی برآمدات کے لئے رقوم کی ترسیل میں مدد فراہم کی تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اسی بنا پر ایرانی تیل کے چاروں بڑے گاہک یعنی چین، جاپان، جنوبی کوریا اور ہندوستان نے تیل کے سودے منسوخ کر دیئے۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ کی درخواست، مشورے، حکم یا سفارش پر سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں اضافے کا اعلان کر دیا۔ ایران 40 لاکھ بیرل تیل یومیہ برآمد کرتا ہے، جسے برابر کرنے کے لئے سعودی عرب نے اکتوبر کے آخر میں 8 لاکھ اور اس ماہ کے اختتام تک اضافی پیدوار کا حجم 20 لاکھ بیرل کر دینے کی تیاری مکمل کر لی ہے، جب کہ اس سال کے آخر تک سعودی عرب کی اضافی پیداوار 30 لاکھ بیرل یومیہ ہو جائے گی۔ دوسری طرف روس نے موقعہ سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنی یومیہ پیداوار میں 6 لاکھ بیرل کا اضافہ کر دیا ہے۔ لیبیا، عراق، نائیجیریا، متحدہ عرب امارات اور الجزائر مجموعی طور پر اب 5 لاکھ بیرل اضافی تیل اپنے کنوئوں سے نکال رہے ہیں۔ یعنی ایرانی تیل کی کمی پوری کر دی گئی ہے، جس کی وجہ رسد میں خلل کا کوئی امکان نہیں۔ شاید اسی وجہ سے گزشتہ ماہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا جو رجحان نظر آرہا تھا، وہ نہ صرف رک گیا ہے، بلکہ کل تیل کی قیمتیں 16 ہفتے کی کم ترین سطح پر آگئیں۔
گزشتہ روز امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ترپ کا ایک اور پتہ پھینک دیا، بلکہ یوں کہئے کہ قیمتوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ موصوف نے آٹھ ممالک کو ایران پر پابندی سے صدارتی استثنیٰ یا waiver عطا کر دیا ہے، یعنی یہ ملک ایران سے تیل خرید سکتے ہیں۔ ان ممالک کی فہرست تو جاری نہیں ہوئی، لیکن امریکی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا، جاپان اور ہندوستان اس میں شامل ہیں۔ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک رعایتی قیمتوں پر کچھ مزید عرصے کیلئے ایرانی تیل خرید سکتے ہیں۔ جناب پومپیو نے یہ نہیں بتایا کہ کتنی رعایت امریکہ کے لئے قابل قبول ہے کہ اعلان میں Massive Discounted Price کہا گیا ہے، جس کا ترجمہ بھاری رعایت یا اونے پونے کیا جا سکتا ہے۔ خود نمائی اور خود پسندی کے مارے صدر ٹرمپ مبالغہ آرائی کے عادی ہیں اور یہ مبہم لفظ ان کی اسی کیفیت کا اظہار ہے۔
یعنی اب جبکہ سعودی عرب، روس اور اوپیک کے دوسرے ممالک نے اپنی پیدوار میں 41 لاکھ بیرل کا اضافہ کردیا ہے، ایران کا 40 لاکھ بیرل تیل بھی بازار میں موجود ہے اور رسد مییں اس اضافے سے قیمتوں پر دبائو صاف نظر آرہا ہے۔
اس صورت حال سے ہندوستان خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ دلی نے سعودی عرب سے ڈالر کے بجائے ہندوستانی روپے میں تیل خریدنے کا معاہدہ کیا ہے اور اب وہ ایران سے بھی رعایتی قیمت پر تیل خریدے گا۔ تہران کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شاید اسے بھی قیمت روپے میں پیش کی جائے۔
پاکستان کی بدقسمتی کہ ناموافق اقتصادی صورت حال کی بنا پر اسے سعودی عرب سے تیل ادھار خریدنا پڑ رہا ہے۔ خواہ گلی کے نکڑ پر کریانہ سے سودا خریدا جائے یا کسی ملک سے تیل، نقد اور ادھار کے باٹ علیحدہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر آج سعودی عرب کے اوپیک باسکٹ کی قیمت 72.64 ڈالر فی بیرل ہے، جبکہ ایران کا تیل امریکی برانڈ کی قیمت پر 63.55 ڈالر فی بیرل دستیاب ہے اور امریکی پابندیوں کی وجہ سے 5 فیصد رعایت بھی حاصل ہو جائے تو یہ 61 ڈالر کا مل سکتا ہے۔ اگر قوم کمر کسنے کو تیار ہو تو ادھار کا جوا اتار کر گرمیٔ بازار سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لئے قومی عزم اور بے لوث و بے خوف قیادت کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب چین امریکہ تجارتی کشیدگی کم ہونے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ گزشتہ دنوں جب پاکستانی وزیر اعظم کا چین میں استقبال ہو رہا تھا، عین اسی وقت امریکہ کے صدر ٹرمپ اپنے چینی ہم منصب سے فون پر محو گفتگو تھے۔ دنیا کے ان دو ’’بڑوں‘‘ میں کئی مہینوں سے شدید کشیدگی ہے۔ بحر جنوبی چین (South ChinaSea) میں امریکی جہازوں کی مٹر گشتی چین کو پسند نہیں اور دونوں کئی بار ایک دوسرے کو برے انجام کی دھمکی دے چکے ہیں۔ لیکن عسکری کشیدگی سے زیادہ شدید تجارتی جنگ ہے۔ صدر ٹرمپ نے امریکہ آنے والی چینی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کردیئے تو جواب میں چین نے دوسری مصنوعات کے ساتھ امریکہ سے درآمد ہونے والی غذائی اجناس، دودھ اور سور کے گوشت پر محصولات میں اضافہ کر دیا۔ چین کے جوابی حملوں کا نشانہ امریکی کاشتکار اور مویشی پرور بنے ہیں، جس سے صدر ٹرمپ کی سیاسی قوت پر منفی اثر پڑ رہا ہے کہ دیہی امریکہ ریپبلکن پارٹی کا قلعہ ہے۔ چنانچہ صدر ٹرمپ بھی تجارتی جنگ کے پروقار خاتمے کے خواہش مند ہیں۔
سفارتی حلقوں کے مطابق جمعرات کو فون پر طویل گفتگو انتہائی خوشگوار رہی اور دونوں رہنما اس مسئلے پر بامقصد مذاکرات کیلئے تیار ہوگئے۔ بات چیت کے بعد صدر ٹرمپ نے اس گفتگو کو انتہائی مثبت اور امید افزا قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس مسئلے پر صدر ژی سے جی ٹوئنٹی چوٹی کانفرنس کے موقع پر تفصیلی گفت و شنید کریں گے، جو نومبر کے اختتام پر بیونس ائرس (ارجنٹیا) میں ہوگی۔ چین کی وزارت خارجہ نے بھی سربراہ ملاقات کی تصدیق کر دی۔ اس پریشان کن مسئلے پر خوشگوار اور مثبت گفتگو کے نتیجے میں عمران خان سے ملاقات سے پہلے چینی صدر کا موڈ بڑا اچھا ہوگیا ہوگا۔ توقع ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستانی وزیر اعظم سے بھی ان کی ملاقات بہت خوشگور رہی ہوگی۔ ٭
Prev Post
Next Post