یہ تین روز پہلے کی بات ہے، سیلانی کو قریب ہی کے سیکٹر آئی ایٹ کے تجارتی علاقے آئی ایٹ مرکز جانا تھا، شام ڈھلے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی، لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ رات ہوئے کافی دیر ہوگئی ہے۔ اسلام آباد میں تاریکی تیزی سے پھیلتی ہے، سورج کسی کے اقتدار کا ہو یا جاڑے کا، ایسے غروب ہوتا ہے، جیسے کبھی طلوع ہی نہیں ہوا تھا۔ یہ بات تو عام دنوں کی ہے، اس رات تو ملک میں جگہ جگہ دھرنے دیئے جا رہے تھے، کراچی سے کشمور اور پشاور سے قلات تک، جگہ جگہ لوگ دھرنے دیئے بیٹھے تھے، ایسے میں خوف اور انجانے ڈر کو ہاتھوں میں لئے سناٹے ہی کو ہونا تھا۔
سیلانی نے آن لائن ٹیکسی بک کروائی اور انتظار کرنے لگا، تھوڑی دیر میں ٹیکسی آگئی اور سیلانی سلام کرکے ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا، ڈرائیور نے خاموشی سے کار آگے بڑھا دی۔ سیلانی کو خاموشی پسند نہیں، اس نے ٹیکسی کی کھڑکی سے سرد ہواؤں کی آمد روکنے کے لئے شیشے کی شفاف رکاوٹ کھڑی کرتے ہوئے ڈرائیور سے پوچھا ’’پنڈی کی طرف کیا حال ہے؟‘‘
’’لوگ دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے تھکے تھکے لہجے میں مختصر سا جواب دیا، اس کے لہجے میں پنہاں تھکن بتا رہی تھی کہ اسے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو گئی ہے۔
’’ریلوے اسٹیشن کی طرف جانے کا کوئی راستہ ہے؟‘‘ سیلانی نے اگلا سوال پوچھا۔
’’مشورہ تو یہی ہے کہ نہ جائیں، مری روڈ پر لوگ ڈنڈے سوٹے لے کر بیٹھے ہیں، میں خود پنڈی میں رہتا ہوں، صبح گھر سے نکل آیا تھا، اب پتہ نہیں کس طرح جاؤں گا۔‘‘ اس کی بات منہ ہی میں رہ گئی، اس کا سیل فون بجنے لگا، اس نے فون کان سے لگا کر ہیلو کہا اور دوسری طرف سے بات سن کر کہنے لگا ’’کچھ نئیں کہہ سکدا، حالات ٹھیک نئیں گے، مری روڈ تے لوکی ڈنڈے سوٹے لے کے بیٹھے نے۔‘‘
دوسری طرف سے اسے یقینی طور پر احتیاط کرنے کا مشورہ دیا گیا ہوگا، جس کے جواب میں اس نے چنگا جی کہہ کر فون دوبارہ ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔ سیلانی نے اس سے ازراہ ہمدردی ایک دو جملے کہے اور پھر گویا ہوا: ’’اس طرح سے احتجاج نہیں کرنا چاہئے، خلق خدا کو تکلیف…‘‘ اس کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹیکسی ڈرائیور نے تیز ی سے اس کی بات کاٹ دی ’’کیوں نہیں کرنا چاہئے؟‘‘
’’لوگوں کو تکلیف دیئے بنا بھی تو بات ہو سکتی ہے، کس قدر نقصان ہوگیا ہے۔‘‘
’’او جی میں کہتا ہوں آگ لگ جائے پورے ملک کو، آپ نقصان کی بات کرتے ہیں؟‘‘ ڈرائیور نے جذباتی انداز میں قدرے جارحانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا۔ اس کے بعد سیلانی سارا راستہ خاموش ہی رہا، یہاں تک کہ آئی ایٹ مرکز آگیا اور وہ ٹیکسی ڈرائیور کو اجرت دے کر خاموشی ہی سے مرکز کی جانب بڑھ گیا۔
آسیہ مسیح کے مقدمے کے فیصلے نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے، ملک کے ایک کونے سے آخری کونے تک مشتعل لوگ سڑکوں پر دھرنا دیئے بیٹھے رہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے بڑے فیصلے کو برا فیصلہ قرار دے کر ماننے سے انکاری ہیں، فولادی راہداریوں پر ریل اور موٹر ویز پر گاڑیوں کے پہیئے جام کر دیئے گئے، پورا ملک جذباتی کیفیت کا شکار ہوگیا، ہر ایک کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے کہ آسیہ کو پھانسی دو۔
سیلانی ٹیکسی والے سے ملاقات اور آنے والی خبروں کے بعد سے الجھن کا شکار ہوگیا، یہ الجھن آسیہ مسیح کی سزا کو کالعدم قرار دینے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس نے اور بڑھا دی، نئے آئی جی کی تقرری کے خلاف وفاق کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے بالواسطہ طور پر سڑکوں پر بیٹھے ہوئے مظاہرین کو مخاطب کیا تھا، ان کے ریمارکس کو لے کر آنے والا نیوز چینل کا رپورٹر مائیک ہاتھ میں لئے کیمرے کے سامنے کھڑے ہو کر بتا رہا تھا کہ چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ججز بھی کسی سے کم نبیؐ کے عاشق نہیں… حرمت رسولؐ پر جان بھی قربان ہے، مگرجب ثبوت نہیں تو سزا کیسے دے دیں، ہم صرف مسلمانوں کے نہیں، پاکستان کے قاضی ہیں… چیف جسٹس کے اس اعلان نے بھی مظاہرین کا جوش ٹھنڈا کیا نہ ان کا غصہ کم ہوا اور سیلانی کی الجھن بڑھتی گئی، اسے ایک اہم شخصیت سے ملنا تھا، وہ آج کل گوشہ نشینی میں ہیں، انہوں نے اپنا حلقۂ احباب سمیٹ کر میڈیا سے بھی فاصلہ کر رکھا ہے۔ سیلانی نے ان سے ابھی اپنی الجھن کا ذکر کیا اور ان کے آراستہ مہمان خانے میں چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے اسے سامنے رکھ دیا اور کہنے لگا:
’’اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے، پورا ملک افراتفری کا شکار ہے، کچھ دن اور لگ گئے تو کھلی لوٹ مار شروع ہو جائے گی۔‘‘
’’صحیح کہہ رہے ہیں آپ، سچی بات ہے عمران خان نے مایوس کیا۔‘‘ سیلانی ان کی اس بات پر چونک گیا، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ انہیں بھی عمران خان سے خاصی امید رہی ہے۔
’’ایک تو یہ وقت اس مقدمے کا فیصلہ سنانے کے لئے مناسب نہیں تھا، مقدمے کی سماعت ہو چکی تھی، ججز نے فیصلہ لکھ کر محفوظ کر لیا تھا، صرف سنانا ہی باقی رہ گیا تھا، وہ کسی بھی وقت سنایا جا سکتا تھا اور اس کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اس کے لئے ہوم ورک کرنا چاہئے تھا، فضا تیار کی جانی چاہئے تھی، پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے، رائے عامہ بنانے اور اس پر اثر انداز ہونے والوں سے رابطہ کیا جاتا، فیصلے کے حوالے سے ہلکی پھلکی ’’بریکنگ‘‘ دے کر سوسائٹی کی نبض دیکھی جاتی، پھر بڑے علما حضرات سے ملا جاتا، انہیں اعتماد میں لیا جاتا کہ فیصلہ یوں بھی ہو سکتا ہے اور یوں بھی۔ اس سے reaction زیرو نہیں تو کم سے کم کیا جا سکتا تھا، یہ وقت اس فیصلے کے لئے بالکل مناسب نہیں تھا‘‘۔
وہ اپنے تجربے کی روشنی میں یہ سب کہہ رہے تھے، لیکن سیلانی کی الجھن ختم نہیں ہو رہی تھی۔ وہ یہ الجھن لے کر وہاں سے اٹھا اور اسی طرح ٹیکسی کرکے گھر آگیا۔ یہ الجھن اس کے ذہن پر کسی چھپکلی کی طرح چپک کر رہ گئی تھی، جو اتر کر ہی نہیں دے رہی تھی۔ اس چھپکلی کے ساتھ وقت گزارنا مشکل تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہی کیوں، چیف جسٹس نے فیصلے کا آغاز کلمے سے کیا، چیف جسٹس نے شاتمین رسولؐ کی سزا پر بھی کوئی سوال نہیں کیا، انہوں نے اتفاق کیا کہ رسالت مآبؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کی سزا یہی ہونی چاہئے۔ انہوں نے فیصلے سے اگلے روز اپنے جذبات کا بھی اظہار کر دیا، اس کے باوجود بھی لوگوں کا اشتعال کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
سیلانی نے حالات جاننے کے لئے ٹیلی ویژن لگا لیا، اس رنگین چوکھٹے پر اک پروگرام کے اینکر صاحب صورت حال سے آگاہ کرنے کا فریضہ انجام دے رہے تھے، اسی اثناء میں کراچی سے ایک قاری کی کال آگئی۔
’’سیلانی بھائی! یہ سب کیا چل رہا ہے، چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ گواہوں کے بیان میں تضاد ہے اور ہمارے ایک وکیل دوست کا کہنا ہے کہ گواہوں کے بیان میں اضافے کو تضاد کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ضروری تو نہیں بندے کو سب کچھ ایک ہی وقت میں یاد آجائے۔‘‘
’’بات ان کی درست ہے، لیکن یہ بھی تو دیکھیں کہ فیصلہ کرنے والے بھی مسلمان ہیں، انہوں نے یوں ہی تو فیصلہ نہیں دے دیا ہوگا۔‘‘ سیلانی کے منہ سے یہ نکلا ہی تھا کہ دوسری جانب سے چہک کر کہا گیا: ’’کیسی عدالت اور کہاں کے جج؟ عدالتیں فیصلے کر رہی ہوتی ہوں تو آج یہ حال ہوتا، مجھے بتائیں جب سے یہ توہین رسالت کا قانون بنا ہے کتنوں کی گردنیں لمبی ہوئی ہیں، کتنوں کو پھانسی ہوئی ہے، کسی ایک کا نام ہی بتا دیں، آپ تو باخبر صحافی ہیں ناں۔‘‘
اور سیلانی کسی ایک کا بھی نام نہ لے سکا، ملکی تاریخ میں آج تک کسی شاتم رسولؐ کو اس کے کئے کی سزا نہیں دی جا سکی ہے۔ بات درست تھی، اگر عدالتوں نے توہین رسالت کے جرم میں کسی کو سزا سنائی ہوتی اور ایک دو گستاخوں کے غلیظ وجود پھانسی کے پھندے سے جھول رہے ہوتے تو عبرت کرنے والے عبرت بھی پکڑتے اور لوگوں کے پاس یقین کی وجہ بھی ہوتی، دلیل بھی ہوتی کہ عدالتوں میں مقدمات طوطوں کی طرح نہیں پالے جاتے، قاضی القضاۃ فیصلے بھی کرتا ہے، ایسے فیصلے جن پر عمل بھی ہوتا ہے، اب ایسی صورت حال میں کون عدلیہ پر بھروسہ کرے؟ مسئلہ سارا یہی ہے کہ قوم کو حکومت سمیت کسی ادارے پر اعتبار ہی نہیں، جج کلمے پڑھ کر یقین دلا رہے ہیں اور کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ مسئلہ اعتماد کے فقدان کا ہے… سیلانی نے ہنکارہ بھر کر اپنے دوست کی بات کی تائید کی۔ بدقسمتی سے برہنہ سچ یہی ہے۔ سیلانی اپنے دوست سے بات کرنے کے بعد یہی سوچتا رہا اور ٹیلی ویژن پر مشتعل لوگوں کو سڑکوں پر بیٹھا دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔ ٭
Prev Post
Next Post