فضائل ذکر میں ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ان کو اسم اعظم آتا تھا۔ (اسم اعظم حق تعالیٰ کا وہ مبارک نام ہے جس کے طفیل ہر دعا قبول ہوتی ہے) ایک فقیر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے استدعا کی کہ حضرت! آپ مجھے اسم اعظم سکھا دیجئے۔ انہوں نے فرمایا: تم میں اہلیت و قابلیت نہیں ہے۔ فقیر نے کہا کہ مجھ میں اس کے سیکھنے اور عمل کرنے کی استعداد ہے۔ بزرگ نے ان کا امتحان لینا چاہا اور فرمایا کہ اچھا فلاں جگہ جا کر بیٹھ جائو اور وہاں جو واقعہ پیش آئے، اس کی مجھے آکر خبر دو۔
فقیر اسی جگہ گئے۔ دیکھا کہ ایک ضعیف العمر شخص گدھے پر جنگل سے سوکھی لکڑیاں لادے ہوا آرہا ہے۔ سامنے سے ایک سپاہی آیا، جس نے اس بوڑھے آدمی کو مار پیٹ کی اور لکڑیاں بھی چھین لیں۔ فقیر کو اس سپاہی پر بہت غصہ آیا۔ واپس آکر بزرگ کو سارا واقعہ سنایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر مجھے اسم اعظم آجاتا تو میں اس سپاہی کے لیے بد دعا کرتا۔
ان بزرگ نے فرمایا کہ اس لکڑی والے بزرگ سے ہی میں نے اسم اعظم سیکھا تھا۔ دیکھو انہوں نے باوجود اس اعظم جاننے، عامل ہونے اور قدرت رکھنے کے اس سپاہی کے لیے بددعا نہیں فرمائی اور صبر و تحمل سے کام لیا، یاد رکھو، اسم اعظم سیکھنے کے لیے ایسی ہی اہلیت اور قابلیت کی ضرورت ہے۔ (فضائل ذکر ص 592)
اسم اعظم اور اسماعیلؒ فرغانی کا واقعہ
شیخ اسماعیل فرغانیؒ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک عرصہ سے اسم اعظم سیکھنے کی تمنا تھی۔ ایک روز میں دمشق کی جامع مسجد میں بیٹھا تھا کہ دو آدمی مسجد میں داخل ہوئے اور میرے قریب کھڑے ہو گئے۔ مجھے ان کو دیکھ کر خیال ہوا کہ یہ حق تعالیٰ کے فرشتے معلوم ہوتے ہیں، ان میں ایک نے دوسرے سے پوچھا کیا تو اسم اعظم سیکھنا چاہتا ہے؟ اس نے کہاں ہاں، بتا دیجئے۔ میں ان کی یہ گفتگو سن کر توجہ اور غور کرنے لگا، کیونکہ مجھے اسم اعظم سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ کئی کئی دن فاقے کرتا، حتیٰ کہ فاقوں کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گر جاتا۔
بہرحال ان دونوں کی گفتگو پر میں نے پوری توجہ دی۔ اس نے اپنے دوسرے ساتھی کو کہا کہ اسم اعظم لفظ اللہ ہے، بشرطیکہ وہ مبارک نام صدق لجا سے ہو۔ شیخ اسماعیلؒ فرماتے ہیں کہ صدق لجا کا مطلب یہ ہے کہ اسم اعظم کہنے والے کی حالت اس وقت ایسی ہو کہ جیسا کہ کوئی شخص دریا میں غرق ہورہا ہو اور کوئی بھی اس کا بچانے والا نہ ہو تو ایسے وقت میں جس خلوص سے نام لیا جائے گا، وہ حالت مراد ہے۔ اسم اعظم معلوم کرنے کے لیے بڑی اہلیت اور بڑے ضبط و تحمل کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے۔
امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اسم اعظم
ملا علی قاریؒ نے شرح فقہ اکبر میں فرمایا ہے۔
ترجمہ: ’’امام محمد بن الحسنؒ فرماتے ہیں کہ سنا میں نے امام ابو حنیفہؒ سے، فرمایا حق تعالیٰ جل شانہ کا اسم اعظم یعنی ذاتی نام لفظ ’’اللہ‘‘ ہے اور یہی مذہب ہے امام طحاویؒ اور اکثر عارفین کا۔ اسی لیے بزرگان دین کے نزدیک اس اسم مبارک کے ساتھ ذکر کرنے سے بڑھ کر اور کوئی ذکر نہیں ہوتا، اسم اعظم کے خواص میں سے ایک خاصہ تفسیر خازن جلد اول میں لکھا ہے کہ رب تعالیٰ کا ذاتی اسم مبارک ’’اللہ‘‘ ہے۔ باقی اسماء مبارکہ سب صفاتی ہیں اور اسم مبارک کے خواص میں سے ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ اس اسم مبارک سے اگر کوئی حرف حذف و الگ کیا جائے تو باقی کے حروف بھی ذات بابرکات باری تعالیٰ پر پوری دلالت کرتے ہیں۔
مثلاً اگر لفظ اللہ سے الف کو حذف کیا جائے تو باقی للہ رہے گا، جو ذات باری تعالیٰ پر دلالت (یعنی دلیل و ثبوت) کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ…الایۃ (پ 3 البقرہ آیت 284) اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔
اور اگر الف کو رہنے دیں اور ایک لام کو حذف کریں تو بھی پورا اسم مبارک اِلٰہ باقی رہے گا۔ ارشاد خداوندی ہے۔ والھکم الٰہ واحد (پ 2 البقرہ آیت 163) اور معبود تم سب کا ایک ہی معبود ہے اور اگر لفظ اللہ سے الف اور لام دونوں کو حذف کردیں تو بھی لہٗ باقی رہے گا۔ جو پورا اسم مبارک ذات باری تعالیٰ پر دلالت کرتا ہے۔ فرمایا: لَہُ المُلْکُ… (التغابن آیت 1 پ 28) ترجمہ: اسی کا راج ہے اور اس کی تعریف ہے۔
(گلدستہ واقعات و حکایات)
Prev Post
Next Post