جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ
سابق چیف آف آرمی اسٹاف، پاکستان
[email protected]
مولانا سمیع الحق کو کس نے شہید کیا؟ اس کا علم تو شاید ہی ہو سکے، لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کی شہادت سے پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان ایک معتبر رابطہ ختم ہوگیا ہے، جس کا نقصان پاکستان کو ہی ہوگا۔ مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا یہ پختہ مؤقف تھا کہ: ’’جب تک امریکہ اور دیگر قابض افواج افغانستان میں موجود ہیں، خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔‘‘
ان کا کہنا تھا: افغانستان کی قسمت کا فیصلہ خود افغانیوں کو کرنا چاہیے، امریکہ، پاکستان، ایران یا روس کو ان کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
ایک سازش کے تحت پاکستان سے ایسے رہنمائوں کو ہٹایا جا رہا ہے، جو امریکی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ امریکہ نے افغان حکومت کے ذریعے مولانا سمیع الحق پر دبائو ڈاالنے کی کوشش کی تھی۔ آج سے تقریباً ایک ماہ پہلے افغان حکومت نے مولانا سمیع الحق سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ثالث بننے کی درخواست کی، جس کے جواب میں مولانا سمیع الحق نے کہا تھا: ’’امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے وہ یہ کردار خوش اسلوبی سے ادا نہیں کر سکتے۔‘‘
اسی سلسلے میں افغان حکومت کی طرف سے آئے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی سرکاری وفد نے ان سے یکم اکتوبر 2018ء کو اکوڑہ خٹک میں ملاقات کی۔ یہ ملاقات دو ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی، وفد میں افغانستان میں مختلف جماعتوں کے سرکردہ حکومتی افراد اور اہم علماء شامل تھے، جن میں سے بعض علماء جامعہ حقانیہ سے فارغ التحصیل اور مولانا سمیع الحق کے شاگرد رہ چکے تھے۔ پاکستان میں افغان سفارت خانہ کے سفارت کار بھی اس ملاقات میں شریک تھے۔
وفد نے مولانا سمیع الحق سے افغانستان کی صورت حال پر تفصیلی بات چیت کی اور مولانا سے قیام امن کے لئے کردار ادا کرنے پر زور دیا۔ ان کا مقصد تھا کہ کسی طرح طالبان اشرف غنی کی حکومت کو تسلیم کرلیں۔ اس ضمن میں وفد نے افغانستان حکومت بشمول شمالی اتحاد اور حکومت کے تمام اتحادی گروپوں کی طرف سے مولانا سمیع الحق کو ثالث بننے کی پیشکش کی اور ان کے ہر فیصلے کو تسلیم کرنے کا یقین دلایا، سر تسلیم خم کیا کہ ہم سب افغان طالبان کی طرح آپ کو اپنا استاد، رہبر اور باپ کی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن مولانا نے ان سے کہا کہ یہ ایک پیچیدہ بین الاقوامی مسئلہ ہے، امریکہ سمیت بڑی طاقتیں اپنی مرضی کے مطابق اسے حل کرنا چاہتی ہیں اور وہ ہمیں حل کرنے نہیں دیں گی۔ میں اپنے کمزور کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈال سکتا، مگر میری دلی خواہش ہے کہ افغان جہاد افغانیوں کی مرضی کے مطابق اپنے منطقی انجام یعنی ملک کی آزادی اور اسلام کی سر بلندی تک پہنچ جائے اور یہ باہمی خون خرابہ بند ہو جائے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ پہلے مرحلے میں آپ میں سے چند مخلص علمائ، افغان حکمران، پاکستان اور امریکہ کی مداخلت سے ہٹ کر خاموشی سے کسی خفیہ مقام پر مل بیٹھیں اور متحارب گروہ بھی ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھ لیں۔ مولاناسمیع الحق نے کہا کہ میرے نزدیک اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ افغانستان کے حکمران، پچھلے دور کے مجاہدین، عوام اور طالبان کا ایک نقطے پر متفق ہو کر ملک کی آزادی اور امریکی نیٹو افواج کے انخلا پر متفق ہو جائیں تو قابض استعماری قوتیں نکلنے پر مجبور ہوں گی، اس کے بعد تمام افغانیوں کو مل بیٹھ کر اپنے ملک کے لئے ایک نظام پر اتفاق کرنا چاہیے اور تمام طبقوں کو افغانستان کی آزادی کے لئے دی گئی لاکھوں افراد کی جانی شہادتوں اور لاکھوں مہاجرین کے دربدر ہونے کی قربانیوں کی لاج رکھنا ہوگا۔
ان حالات میں حکومت پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہئے اور ملا عمر کے ان الفاظ کو ذہن و دماغ میں بٹھا کر افغانستان میں امن کی تلاش جاری رکھنا ضروری ہے:
’’ہماری (افغانوں اور پاکستانیوں کی) قدریں مشترک ہیں۔ ہماری قومی سلامتی کے تقاضے ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ہماری جدوجہد آزادی کی منزل ایک ہے۔‘
٭٭٭٭٭