چلتے ہو تو چین کو چلئے!

0

یہ بھی ایک علامتی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب کے بعد چین کے دورے پر ہیں۔ سعودی عرب کے بعد وہ چین سے بھی خالی ہاتھ نہیں آئیں گے۔ وہ چین سے بھی کچھ سرمایہ لائیں گے۔ اس سرمائے کی معرفت وہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی بلیک میلنگ سے بچائیں گے۔ مگر پاکستان کے حکمران کب تک ایک قسم کی چوٹ بچائیں گے اور دوسری قسم کی چوٹ کھائیں گے؟
شاید یہ اس مباحثے کے لیے یہ مناسب وقت نہیں، مگر یہ سوال ہے تو بہت اہم کہ ’’قرض اور امداد میں سے کون سی چیز بدتر ہے؟‘‘ کیوں کہ ایک ملک کے لیے قرض بھی برا ہے اور امداد بھی بری چیز ہے۔ جب قرض دینے والے ادارے ہمیں اپنی پالیسیوں پر چلانے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ جب وہ ہماری معرفت ہمارا ملک چلانے کی کوشش کرتے ہیں، تب امداد غیر مشروط کس طرح ہو سکتی ہے؟ امداد کبھی بھی کسی بھی دور میں بغیر مطلب کے نہیں دی گئی۔ سرد جنگ کے دور میں جس بھی ملک کو جس بھی قوت کی طرف سے امداد ملا کرتی تھی، وہ ملک اس قوت کے مفادات کا تحفظ کرتا تھا۔ یہ سرد جنگ کا دور نہیں ہے۔ اس دور میں امداد نے قرض کی صورت اختیار کر لی ہے، مگر وہ قرض بھی غیر مشروط نہیں۔ قرض دینے والی قوت صرف سود وصول نہیں کرتی، مگر وہ منافع کی صورت میں اپنے مفادات پر اس طرح عمل کرواتی ہے کہ قرض لینے والے ملک کی آزادی برائے نام بن کر رہ جاتی ہے۔ اس دنیا میں مکمل آزادی تو شاید تصور میں بھی ممکن نہیں، مگر پھر بھی جس کو جس قدر آزادی حاصل ہے، اس کی وہ آزادی اس وقت کم ہونے لگتی ہے جب وہ کسی سے قرض یا امداد حاصل کرتا ہے۔
آج اگر پاکستان چین کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے لیے مجبور ہے تو اس کے بھی اسباب ہیں۔ حالانکہ چین پاکستان کے بعد اپنے داخلی غلامی سے آزاد ہوا۔ آزاد ہونے کے وقت چین پاکستان سے زیادہ مجبور اور کمزور ملک تھا۔ چین پر سب سے زیادہ بوجھ اس کی آبادی کا تھا۔ چین کی معاشی حالت بہت بری تھی۔ آج چین نہ صرف ایشیا بلکہ پوری دنیا میں ابھرتی ہوئی معیشت کی علامت ہے۔ چین اس مقام پر کبھی نہ پہنچ پاتا اگر وہ بھی پاکستان کی طرح غیر ملکی امداد کے دانے پر گر جاتا۔ چین نے غیر ملکی امداد سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ اس نے اپنی دھرتی سے اپنے لیے ہر طرح کے وسائل پیدا کیے۔ آج چین دنیا میں ایک مثالی ملک بن چکا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کی ناقص پالیسی یہ تھی کہ انہوں نے وسائل سے بھرپور ملک کو بہت کمزور کر دیا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے آپ کو امداد کا عادی بنایا اور پھر پاکستان بیرونی قرضوں کے جال میں جکڑتا گیا۔ آج وسائل کے حوالے سے ایشیا کا خوش نصیب ملک ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے بہت بدنصیب بنا ہوا ہے۔
امریکہ اس ملک کی توہین کرنے کا کوئی موقعہ نہیں گنواتا۔ بھارت اس ملک کو ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی دھمکی دیتا ہے۔ ہمارے لیے معاشی کمزوری کی وجہ سے اپنی آزادی کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس صورت حال میں ہم کشمیر کی آزادی کے لیے کون سا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ یہ سوال اور ایسے بہت سارے سوالات نہ صرف ہمارے حکمرانوں اور ملک چلانے والوں بلکہ اس ملک کے عام باشندوں کے ذہنوں میں بھی گردش کر رہے ہیں۔
یہ بات ہمارے لیے امید افزا نہیں کہ نئے پاکستان کے نعرے پر ووٹ لینے والے ہمارے وکھرے ٹائپ کے وزیر اعظم اقتدار میں آنے کے بعد کشکول اٹھا کر دوست ممالک کے دروازوں پر امداد کے لیے دستک دینے پر مجبور ہیں۔ حالانکہ ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہئے کہ جو ملک قرضہ یا امداد دیتا ہے وہ دوست نہیں رہتا۔ ہم نے اپنے فطری دوستوں سے قرضہ یا امداد لے کر دوستی کے حق سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہمیں اپنے بڑے بزرگوں نے بار بار یہ بات بتائی تھی کہ دینے والے کا ہاتھ ہمیشہ اوپر اور لینے والے کا ہاتھ ہمیشہ نیچے ہوتا ہے۔ جب کہ دوستی میں ہاتھ برابر ہونا ضروری ہے۔ ہم پہلے امداد اور پھر قرضہ لینے کی وجہ سے اپنے قومی وقار سے دستبردار ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو امریکی سینیٹرز ہمیں گالیاں نہیں دیتے۔ آج ہم دنیا میں تنہا ہیں۔ آج دنیا میں ہمیں عزت بھری آنکھوں سے نہیں دیکھا جاتا۔ حالانکہ ہم نے امریکہ کی طرح کسی بھی ہنستے بستے شہر کو ایٹم بم کا نشانہ بنا کر اسے تباہ اور برباد نہیں کیا۔ ہم نے عراق پر کارپیٹ بمباری نہیں کی۔ ہم نے افغانستان پر ڈیزی کٹر بم برسا کر اس ملک پر قبضہ نہیں کیا۔ ہم نے اسرائیل کی طرح کسی پناہ گزیں کیمپ کو شمشان گھاٹ نہیں بنایا۔ ہم نے کسی قوم کی دھرتی پر ناجائز قبضہ نہیں کیا۔ ہم نے کسی غزہ نامی شہر کے بچوں کو شہید نہیں کیا۔ پھر بھی ہمیں اس طرح دیکھا جاتا ہے جیسے ہم مجرم ہوں۔ ہمارے پاسپورٹ پر نظر پڑتے ہی باہر کے ممالک کے ایئر پورٹس پر کام کرنے والے عملے کا رویہ ہم سے تبدیل ہو جاتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس کا سبب پاکستان کی پالیسیاں ہیں، مگر جس طرح غربت ہر بیماری کی جڑ ہوتی ہے، اس طرح ہمارا مقروض ہونا اور ہمارا امداد کے نام پر مجبور ہونا ہماری بہت ساری ان پالیسیوں کی بنیاد ہے، جن سے ہم خود بھی اتفاق نہیں کرتے۔ البرٹ کامو نے کتنی کام کی بات کی تھی کہ ’’ہم بہت کچھ خود نہیں کرتے، ہم سے بہت کچھ کروایا جاتا ہے۔‘‘
ہمیں اپنی مرضی کی آزاد پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے معاشی طور پر آزاد ہونا پڑے گا۔ اس دور میں کسی فرد کو بھی تب تک آزاد فرد نہیں کہا جاتا، جب تک وہ معاشی طور پر آزاد نہ ہو۔ پاکستان تو کروڑوں افراد پر مشتمل ایک ملک ہے۔ وہ کروڑوں افراد جو دن رات یہ بات سنتے ہیں کہ ہمارا ہر ایک شہری غیر ملکی قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ حالانکہ اس شخص نے یا اس کے خاندان نے کبھی کسی سے کوئی قرض نہیں لیا، مگر سیاستدان اور حکمران عوام کو حیران اور پریشان کرنے کے لیے کہتے رہتے ہیں کہ ملک کا بچہ بچہ مقروض ہے۔ قرض کی قید سے آزاد ہونے کے لیے ہم نے ہمیشہ اپنے پڑوسی ملک چین سے سبق حاصل کرنے کی بات کی ہے۔ پاکستان کا جب بھی کوئی حکمران دورئہ چین پر جاتا ہے تو وہ جاتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ وہ پاکستان کو معاشی طاقت بنانے کے لیے چین سے سیکھیں گے اور جب وہ وہاں سے آتا ہے تو چند دن سادگی اختیار کرتا ہے اور پھر اسی رنگ میں رنگ جاتا ہے۔ جب جنرل ضیاء الحق چین گئے تھے، تب وہ وہاں کے سرکاری کلچر سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے وہاں سے واپس آنے کے بعد بغیر چینی کے چائے پینا شروع کی تھی اور اپنے دفتر جانے کے لیے سائیکل استعمال کرتے تھے۔ مگر صرف سائیکل پر سفر کرکے کوئی ملک اس منزل پر نہیں پہنچ سکتا، جہاں آج چین کھڑا ہے۔ کل تک چین کے حکمران عام لوگوں جیسا لباس پہنتے تھے اور وہ سائیکل پر سفر کرتے تھے، مگر اب چین کے حکمران مہنگے سوٹ پہنتے ہیں اور مہنگی ترین گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ وہ کل بلٹ پروف مرسڈیز افورڈ نہیں کر سکتے تھے، مگر آج وہ مہنگی اور محفوظ گاڑی افورڈ کر سکتے ہیں۔ چین نے ہمیشہ اپنی چادر کے مطابق پیر پھیلائے ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں نے قرضوں پر عیاشی کی ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا:
’’پیتے تھے مے قرض کی اور سوچتے تھے یہ
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن‘‘
فاقہ مستی کبھی رنگ نہیں لاتی۔ قرض کی مے مرض بن کر پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ مگر ہم قرض سے عیاشی کرنے کے ماہر ہیں۔ ہمارے حکمران جب امریکہ جاتے ہیں تب امریکی حکمرانوں کی طرح بننے کی حسرت کرتے ہیں اور جب وہ چین جاتے ہیں تب وہ چین کے نقش قدم پر چلنے کے نعرے لگاتے واپس آتے ہیں، مگر ایک نعرہ لگانے اور ایک قدم اٹھانے سے کوئی ملک چین کی طرح معاشی طاقت کا مالک نہیں بن جاتا۔ چین بننے کے لیے مسلسل سفر کرنا پڑتا ہے۔ چین کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے پوری دنیا کی دانائی کو اپنے دامن میں سمیٹا ہے۔ چین نے صرف دنیا بھر کی دانائی کو اپنے دامن میں نہیں سمیٹا، بلکہ اس نے اس دانائی پر عمل بھی کیا ہے۔ چین اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ صرف اپنی ڈائری میں اقوال زریں لکھ لینے سے کوئی ملک عظیم قوت نہیں بنتا۔ اگر دیوار پر عظیم قول لکھنے سے اثر پڑتا تو دنیا کی ہر دیوار صرف چند الفاظ لکھوانے سے دیوار ِچین بن جاتی۔
اس بار ہر حکمران کی طرح عمران خان نے بھی اعلان کیا کہ وہ چین سے ترقی کا نسخہ لائیں گے۔ ترقی کا نسخہ ایٹم بم کا فارمولہ نہیں۔ ترقی کا نسخہ کوئی ایسا راز نہیں، جس کو کوئی ملک چھپاتا ہے۔ چین سے ترقی کا فن سیکھنے کے لیے چین جانے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہر ترقی کا ایک سفر ہوتا ہے۔ وہ سفر اختیار کئے بغیر ترقی کی منزل نہیں ملتی۔ ترقی کے سفر کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ عمل کے بغیر علم ایک بیماری ہے۔ چین نے ہمیشہ دنیا کو وہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے، جو بات اس نے اپنے ہر مرد، ہر عورت اور ہر بچے کو سکھانے کی کوشش کی ہے۔ چین نے ترقی کے لیے محنت کو سب سے اولین اہمیت دی ہے۔ چین نے عملی طور پر بتایا ہے کہ ’’محنت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے‘‘ اگر ہم چین کی طرح طاقتور ہونا چاہتے ہیں تو ہم کو ترقی کے خواب دیکھنے کے بجائے ترقی کے خوابوں کو تعبیروں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ صرف خوابوں سے کوئی شخص بڑا نہیں بنتا۔ خلیل جبران نے کیا خوب لکھا ہے کہ ’’وہ کہتے ہیں اس غلام کو مت جگاؤ وہ ترقی کا خواب دیکھ رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس غلام کو نیند سے جگاؤ کہ وہ آزادی کے لیے جستجو کرے۔‘‘
اگر کوئی سیکھنا چاہے تو ایک احمق سے بھی بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ چین تو بے حد دانا اور بڑا چالاک ملک ہے۔ ہم چین سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ اس سیکھنے کی ابتدا ہمیں صبر سے کرنی چاہئے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم چین سے ماؤزے تنگ کے اقوال سیکھیں۔ چین کے پاس صرف ’’ریڈ بک‘‘ نہیں ہے۔ چین کے پاس ’’فن جنگ‘‘ کے مصنف سن زو کا علم اور اس کنفیوشس کی عقل بھی ہے، جس نے کہا ہے کہ ’’اس بات کی پروا مت کرو کہ تمہارا سفر سست ہے، مگر اس بات کی اہمیت ہے کہ وہ دیر تک اور دور تک جاری رہتا ہے۔‘‘
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More