میرے اس رویئے کے سامنے مراکشی مسلم دوست نے ہمیشہ سکون اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ مجھ سے نہ جیت سکے۔ میں ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ میری بات صحیح ہے اور میں اگلا سوال کرنے سے پہلے تھوڑا وقفہ چھوڑ دیتا تھا۔ اصل میں میری مزاحمت سچ کے سامنے جھوٹ کے علاوہ کچھ اور نہ تھی، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سچ کو پہچاننا اور ماننا کافی مشکل ہے (سچ کڑوا ہوتا ہے) اور اسلام کے صحیح طریقہ سے سمجھانا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ تو ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ میری دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا لیکن ہمیشہ میں نے اپنی مزاحمت کو برقرار رکھا۔ کچھ مہینوں کے بعد میں نے خنزیر کا گوشت کھانا چھوڑ دیا اور شراب پینی بھی چھوڑ دی، کیونکہ میرے اندر ایک تبدیلی آچکی تھی اور اب میں ان چیزوں کو اپنا دشمن تصور کرتا تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت ہم سب کا دین اسلام ہی ہوتا ہے (لیکن بعد میں والدین کوئی اور راستہ سکھا دیتے ہیں) اور جب میں نے اسلام کو اپنے دل پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا تو اس وقت صرف یہ ہوا کہ میں اپنے اصلی دین کی طرف واپس پلٹ آیا، جس پر میں پیدا ہوا تھا، میں نے اپنے اسلام کو دوبارہ پا لیا اور اسی وجہ سے ہوش و حواس کے سات میرا جسم ان چیزوں (شراب و خنزیر) سے نفرت کرنے لگ گیا۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسلامی رسم و رواج میرے اندر پہلے سے موجود تھے، بیشک میں خنزیر کھاتا تھا، لیکن ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ نہ کھاؤں، خدا کو ہمیشہ میں واحد جانتا تھا، تثلیث کے عقیدے پر میرا ایمان نہ تھا، میرا یقین تھا کہ خدا کی کوئی جنس یا تعداد نہیں ہو سکتی، کہ میں خدا کو مذکر یا مونث نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی میں خدا کے بارے میں یہ تصور کرتا تھا کہ وہ کوہ قاف کے کسی اونچے خاندان کی ایک باریش اور قوی ہیکل شخصیت ہے۔
اصل اور سچے اسلام تک پہنچنے کے لیے مجھے ان تمام غلط اور جھوٹے اعتراضات کا رد کرنا پڑا، جو عام طور پر اسلام سے منسوب کیے جاتے ہیں اور ان پر میں اپنے بچپن کے معصوم دور سے اب تک یقین کرتا آیا تھا۔ جب میں نے یہ سب کچھ سوچا تو مجھے دلی طور پر گہرا دکھ پہنچا۔ کیونکہ میرے معاشرے نے اتنا عرصہ اسلام کو غلط پیش کیا اور میں سچ تک نہ پہنچ سکا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں، بلکہ انسانی زندگی کا ایک فلسفہ اور مکمل ضابطہ ہے اور یہ انسان کو اس کی زندگی میں پیش آنے والے ہر کام میں مدد کرتا ہے۔ الغرض اسلام ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس مراکشی بھائی سے اتنی لمبی گفتگو کے بعد اب میں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا کہ میں اور میرے عزیز واقارب سب غلط تھے۔
میں نے اپنے یقین کو مکمل کرنے کے لیے یکم اگست 1997 کو زندگی میں پہلی مرتبہ ایک مسجد جانے کا فیصلہ کیا۔
میں نے اپنے اس مراکشی بھائی کو کہا کہ وہ مجھے ساتھ لے کر جائے تاکہ میں جان سکوں کہ وہاں جا کر میں اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنے اس دن کو مکمل تفصیلات کے ساتھ تاحیات یاد رکھوں گا۔ میں اپنے ان جذبات کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتا جو مسجد میں داخلے کے وقت میرے اندر موجود تھے۔مجھے میرے مراکشی دوست نے مسجد میں نماز کی جگہ دکھائی اور میں نے اذان بھی سنی، اس کے بعد ہم امام مسجد کے حجرہ کی طرف آئے۔ اس وقت نمازِ ظہر کا وقت تھا اور جمعہ کا دن تھا، اس لیے امام نے مجھے کہا کہ تم یہاں کمرے میں رہو اور نمازِ جمعہ کے بعد بات کریں گے۔ امام کے کمرے میں اس طرح بیٹھا کہ مجھے ساری مسجد کا منظر نظر آرہا تھا، کیونکہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سب لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کو نماز پڑھتے دیکھ کر میرے ایمان میں مکمل مضبوطی آگئی۔میرے اندر اس وقت جو جذبات تھے، ان کو کاغذ پر بیان کرنا ممکن نہیں، خاص کر جب اذان ہوئی تھی اور جب سب لوگ مل کر آمین کہتے تھے ! (اس وقت میرے جسم کے اوپر اور اس کے اندر جو محسوس ہوتا تھا، اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا)۔ اس وقت میں سمجھ چکا تھا کہ میں اب مسلمان ہوں۔ بعد میں میری امام سے گفتگو ہوئی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post