مسعود ابدالی
امریکہ میں منگل کو وسط مدتی انتخابات (Midterm Elections) ہوئے۔ جس وقت یہ سطور تحریر کی جا رہی تھیں، پولنگ کا عمل شروع ہو چکا تھا اور ایوان نمائندگان کی تمام 435 اور سینیٹ کی 100 میں سے 35 نشستوں پر ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز میں سخت مقابلے کی توقع کی جا رہی تھی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں چار مسلم امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔ جن میں 2 خواتین بھی شامل ہیں۔
الحان عمر نامی خاتون مینسوٹا (Minnesota) کے حلقہ 5 سے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیں۔37 سالہ الحان کی زندگی دکھ، درد لیکن عزم اور جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ صومالیہ کے دارالحکومت موغا دیشو میں جنم لینے والی الحان چند برس کی تھیں کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور ان کی پروش والد اور نانا نے کی۔ خانہ جنگی کی بنا پر الحان کم سنی میں در بدر ہوگئیں اور ان کے خاندان نے کینیا کے شہر ممبا سا کا رخ کیا۔ جس کے بعد وہ 14 سال کی عمر میں پناہ گزین کے طور پر امریکہ آگئیں۔ نقل مکانی، فاقوں اور پریشانیوں کے باوجود الحان نے ہمت نہ ہاری۔ امریکہ آکر انہوں نے انگریزی سیکھی اور سیاسیات میں بی اے کرلیا، جس کے بعد انہوں کو بین الاقوامی امور میں ڈگری حاصل کی اور سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔ 2016ء کے انتخابات میں وہ مینسوٹا اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئیں۔ حلقہ 5 سے مسلم رہنما کیتھ ایلیسن منتخب ہوتے چلے آئے ہیں۔ اس سال کے آغاز نے کیتھ نے کانگریس سے سبکدوش ہوکر ریاستی اٹارنی جنرل کا انتخاب لڑنے کا اعلان کیا اور ان کی خالی نشست پر الحان قسمت آزمائی کررہی ہیں۔ میناپولیس کا یہ شہری علاقہ ڈیموکریٹک پارٹی کاگڑھ ہے اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق الحان عمر کی پوزیشن خاسی مضبوط نظر آرہی ہے۔
دوسری خاتون امیدوار مشیگن (Michigan) حلقہ 13 سے فلسطینی نژاد رشیدہ طالب ہیں، جنہیں ڈیموکریٹک پارٹی نے نامزد کیا ہے۔ 42 سالہ رشیدہ کے والد بیت المقدس اور والدہ غربِ اردن کی ہیں۔ یہ لوگ مشیگن آکر آباد ہوئے جہاں رشیدہ نے جنم لیا۔ ان کے بھائی بہنوں کی تعداد 14 ہے اور پے در پے مہمانوں کی آمد کی وجہ سے رشیدہ کا بچپن بھائی بہنوں کی نگہداشت میں گزرا۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 2008ء میں مشیگن کی ریاستی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ اس بار وہ امریکی ایوان نمائندگان کی امیدوار ہیں۔ رشید تکنیکی اعتبار سے بلا مقابلہ منتخب ہو چکی ہیں کہ ان کے مقابلے پر ریپبلکن پارٹی نے کسی کو ٹکٹ جاری نہیں کیا، لیکن امریکہ میں ووٹر کو بیلٹ پر اپنے ہاتھ سے نام لکھ کر ووٹ ڈالنے کا اختیار حاصل ہے، جسے Write-in ووٹ کہتے ہیں۔ چنانچہ اس نشست پر بھی منگل کو ووٹنگ جاری تھی۔
تیسرے امیدوار انڈیانا (Indiana)حلقہ 7: 44 سے سالہ آندرے کارسن ہیں۔ وہ اس حلقے سے پہلی بار 2008 میں منتخب ہوئے تھے۔ اس سے پہلے یہ ان کی دادی کی نشست تھی۔ حالیہ الیکشن میں وہ یہاں سے چھٹی بار انتخاب لڑ رہے ہیں اور جائزوں کے مطابق ان کی کامیابی یقینی معلوم ہو رہی ہے۔ آندرے نے ایک بار مشورہ دیا تھا کہ امریکی اسکولوں کو نظم و ضبط اور اساتذہ کی عزت کے حوالے مسلم ملکوں کے مدارس سے استفادہ کرنا چاہئے۔ جس پر خوب ہنگامہ ہوا، لیکن آندرے اب بھی اپنے مشورے کو بہت صائب سمجھتے ہیں۔
چوتھے امیدوار معروف مسلم سیاستدان اور سابق کانگریس رکن کیتھ ایلسن ہیں۔ وہ ریاست مینیسوٹا کے اٹارنی جنرل کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا کہ موصوف 2006ء میں پہلی بار امریکی ایوان نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔2007ء کے افتتاحی اجلاس میں جب کیتھ کی حلف برداری کا وقت آیا تو انہوں نے قرآن کریم پر حلف اٹھانے پر اصرار کیا، جس نے ایک تنازعے کی شکل اختیار کرلی۔ ارکان کا کہنا تھا کہ جس انجیل مقدس پر حلف اٹھایا جاتا ہے، اس کی ایک تاریخی حیثیت ہے اور یہ نسخہ صدیوں پرانا ہے۔ اسپیکر نینسی پلوسی نے کیتھ کے مؤقف کی حمائت کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ لائبریری آف کانگریس میں قرآن کریم کا ایک نسخہ موجود ہے، جو امریکہ کے تیسرے صدر ٹامس جیفرسن کے زیر مطالعہ رہا تھا۔ 1801ء میں شائع ہونے والا یہ نسخہ ترک سلطان نے امریکی صدر کو تحفتاً دیا تھا۔ چنانچہ کیتھ ایلسن نے قرآن کے ایک صدی پرانے نسخے پر حلف اٹھایا۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین کیتھ ایلسن اب ریاسٹی اٹارنی جنرل کیلئے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ میں ایوان نمائندگان کی تمام 435 اور سینیٹ کی ایک تہائی یعنی 35 سیٹوں پر انتخابات کو وسط مدتی یا مڈٹرم انتخابات کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ صدر کے 4 سالہ دور صدارت کے وسط میں ہوتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب کے دو سال مکمل ہونے پر امریکا میں یہ الیکشن ہورہے ہیں۔ مڈٹرم انتخابات اس بات کا تعین کریں گے کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں پر کس جماعت کا کنٹرول ہو گا۔ اراکین کانگریس کو صدارتی اور وسط مدتی انتخابات دونوں میں منتخب کیا جاتا ہے۔ ریاست کی آبادی اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ اس کے کتنے نمائندگان ایوان زیریں میں ہوں گے۔ ہر نمائندہ ایک کانگریشنل ڈسٹرکٹ یعنی حلقے کی نمائندگی یا خدمت کرتا ہے۔ کوئی بھی امیدوار کم از کم 7 سال سے امریکی شہری ہو، اس کی عمر 25 سال سے زائد ہو اور وہ اپنے حلقے کا رہائشی ہو تو امریکی کانگریس کے ایوان زیریں کی نشست کے مقابلے کیلئے اہل ہوتا ہے۔ ایوان بالا میں کل سینیٹرز کی تعداد 100 ہے، جبکہ ہر امریکی ریاست سے 2 سینیٹرز کانگریس میں نمائندگی کرتے ہیں۔ امریکی سینیٹرز 6 سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ ہر صدارتی اور وسط مدتی الیکشن میں سینیٹ کے ایک تہائی اراکین کا چنائو کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی امیدوار کم از کم 9 سال سے امریکی شہری ہو، اس کی عمر 30 سال سے زائد ہو اور وہ اپنے حلقے کا رہائشی ہو تو امریکی کانگریس کے ایوان زیریں کی نشت کے مقابلے کے لئے اہل ہوتا ہے۔
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے:
آج کل پولیس، تحریک انصاف کے رہنما اور سب سے بڑھ کر فرضی ناموں سے سکہ بند سیکولر عناصر باریش نوجوانوں کی تصویریں دے کر ان کی نشاندہی کی درخواست کررہے ہیں تاکہ ان لوگوں کو گرفتار کیا جاسکے۔ یہ دیکھ کر ہمیں تحریک آزادی کے عظیم رہنما حضرت مولانا جعفر تھانیسریؒ کے بیان کردہ کچھ قصے یاد آگئے، جو حضرت نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ’’کالا پانی‘‘ میں درج کئے ہیں کہ انگریز مخالف مجاہدین کو گرفتار کرنے کیلئے گورے سپاہی مقامی مخبروں کے ساتھ علاقے میں آتے۔ اس زمانے میں تصویر کا رواج نہ تھا۔ چنانچہ مخبر مطلوبہ فرد کے اہل خانہ کو حراست میں لے کر تھانے لے جایا جاتا، جہاں رشتے داروں سے پوچھ کر ’’ملزم‘‘ کی شبیہ تیار کی جاتی اور پھر انعام کے ساتھ قلمی تصویر کے پوسٹر مساجد کے دروازوں کے باہر، ڈاک خانوں اور دوسرے عوامی مقامات پر آویزان کردیئے جاتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ انعام کے لالچ میں یار لوگ اپنے دشمنوں کو گرفتار کروا دیتے اور پھر پولیس کے لئے ’’ڈرائنگ روم‘‘ میں ’’آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے‘‘ کی چھترول ہی کافی ہوتی تھی اور اگر ملزم مضبوط اعصاب کا ہو تو ایک دو ناخن کھینچنے کی ضرورت پڑتی تھی۔
مظاہروں کے دوران لوگوں کی جائیداد کو نقصان پہنچانا اور آتشزنی قابل نفرت جرم ہے، جس کی سزا ملنی چاہئے، لیکن اس پورے عمل کا شرمناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا، وہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ماضی قریب کے چند واقعات ملاحظہ فرمائیں:
٭…چار حلقے کھولنے کیلئے 126 دن کا جو دھرنا دیا گیا، اس میں پاکستان ٹیلی ویژن کے دفتر پر حملے میں بھی قوم کی خاصی دولت برباد ہوئی تھی۔
٭… پولیس کے جوانوں کو زودوکوب کرنے کے کئی مظاہرے ہم نے خود ٹیلی ویژن پر دیکھے۔ ٹرک سے ٹکر مار کر قومی اسمبلی کا جنگلہ ٹورنے کا منظر بھی براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر ہوا اور اس کے پس منظر میں شیخ رشید کا وہ آتشیں خطاب بھی براہ راست نشر ہوا کہ ’’مارو، مر جائو، اگ لگا دو، گھیرو، جلادو، جلائو گھیرائو وغیرہ۔‘‘
٭… بینظیر کے قتل کے بعد تین تک سارے سندھ میں ہنگامے ہوئے، جس دوران ATM مشینوں سے کروڑوں روپے لوٹ لئے گئے، اربوں کی جائیداد خاکستر کردی گئی، سینکڑوں فیکٹریاں جلا دی گئیں اور کئی جگہ معصوم بچیوں کی آبروریزی کے واقعات بھی ہوئے۔
٭… ایم کیو ایم کے دور عروج میں ہڑتالوں کے دوران جو ہوا، اس پر تو ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
یہ درست کہ ایک غلطی دوسری غلطی کا جواز نہیں بن سکتی، لیکن بقول حضرت عیسیٰ علیہ السلام گناہ گار عورت کو پہلا پتھر وہ مارے، جو خود پاکدامن ہو۔
اگر سزا دینی ہے تو اس کا سلسلہ کراچی اور پھر 2007ء کے فسادات سے ہونا چاہئے یا ان باریش شرپسندوں سے پہلے ڈی چوک کے دھرنے کے ملزمان کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔
ایک اور اہم نکتہ معاہدہ بھی ہے۔ وفاقی و صوبائی وزراء کی جانب سے جس معاہدے پر دستخط کئے گئے ہیں، اس میں بہت صراحت سے لکھا ہے کہ گرفتار مظاہرین کو رہا کردیا جائے گا اور اب رہائی کے بجائے مزید لوگ گرفتار کئے جا رہے ہیں۔ اگر حکومت معاہدے کی اس ڈھٹائی سے خلاف وزری کرے گی تو مستقبل میں اگر دوبارہ ایسی صورت حال پیدا ہوئی کو حکومت پر کون اعتماد کرے گا؟
ان اشتہاروں سے ہمیں مزید تشدد بلکہ خون خربے کا خطرہ بھی لگ رہا ہے۔ لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ تصاویر دیکھ کر اپنے پڑوسیوں، ساتھیوں اور رشتے داروں کی نشاندہی کریں۔ جو لوگ گرفتار ہوں گے تو کیا ان کے باپ، بیٹے اور بھائی مخبری کرنے والوں کو چھوڑ دیں گے؟ مخبروں کو ان کی شناخت خفیہ رکھنے کی یقین دہانی کروائی جا رہی ہے، لیکن جو لوگ ہماری پولیس کو جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ایسے تمام مواقع پولیس کیلئے کھانے کمانے کے دھندے ہیں اور وہ خود ہی ملزمان کے عزیزو اقارب کو مخبروں کے بارے میں بتادے گی۔ اس کے بعد انتقام در انتقام کا سلسلہ کئی نسل تک چلتا رہے گا۔
معلوم نہیں عمران خان کن لوگوں کو مشورے پر عمل کر رہے ہیں؟ حق تعالیٰ انہیں ان کے نادان دوستوں سے بچائے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post