ابھی پڑائو چھوڑ کر ابوسفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعیؓ عنہ پہنچ گئے۔ ابوسفیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس نے پوچھا: معبد! پیچھے کی کیا خبر ہے؟
سیدنا معبدؓ نے کہا: ’’محمد (علیہ الصلوٰۃ و السلام) اپنے ساتھیوں کو لے کر تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں، ان کی جمعیت اتنی بڑی ہے کہ میں نے ویسی جمعیت کبھی دیکھی ہی نہیں، سارے لوگ تمہارے خلاف غصے سے کباب ہوئے جا رہے ہیں، احد میں پیچھے رہ جانے والے بھی آگئے ہیں، وہ جو کچھ ضائع کر چکے ہیں، اس پر سخت نادم ہیں اور تمہارے خلاف اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ میں نے اس کی مثال دیکھی ہی نہیں۔‘‘
ابوسفیان نے کہا: ’’ارے بھائی یہ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
معبدؓ نے کہا: ’’بخدا! میرا خیال ہے کہ تم کوچ کرنے سے پہلے پہلے گھوڑوں کی پیشانیاں دیکھ لو گے یا لشکر کا ہراول دستہ اس ٹیلے کے پیچھے نمودار ہوجائے گا۔‘‘
ابوسفیان نے کہا: ’’بخدا! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر پلٹ کر پھر حملہ کریں اور ان کی جڑ کاٹ کر رکھ دیں۔‘‘
معبدؓ نے کہا: ’’ایسا نہ کرنا، میں تمہاری خیر خواہی کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
یہ باتیں سن کر مکی لشکر کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہو گیا اور انہیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ مکے کی جانب اپنی واپسی جاری رکھیں، البتہ ابوسفیان نے اسلامی لشکر کو تعاقب سے باز رکھنے اور اس طرح دوبارہ مسلح ٹکرائو سے بچنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا، جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابوسفیان کے پاس سے قبیلہ عبد القیس کا ایک قافلہ گزرا۔
ابوسفیان نے کہا: ’’کیا آپ لوگ میرا ایک پیغام محمد (علیہ السلام) کو پہنچا دیں گے؟ میرا وعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا، جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھا سکے گی۔‘‘
ان لوگوں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘
ابوسفیان نے کہا: ’’محمد (علیہ السلام) کو یہ خبر پہنچا دیں کہ ہم نے ان کی اور ان کے رفقاء کی جڑ ختم کردینے کے لیے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
اس کے بعد جب یہ قافلہ حَمراء الاسد میں رسول اقدسؐ اور صحابہ کرامؓ کے پاس سے گزرا تو ان سے ابوسفیان کا پیغام کہہ سنایا اور کہا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہیں، ان سے ڈرو۔
مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیا اور انہوں نے کہا: ’’خدا ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔‘‘ رسول اکرمؐ اتوار کے دن حمراء الاسد تشریف لے گئے تھے۔ دوشنبہ، منگل اور بدھ یعنی نو، دس،اور گیارہ شوال 3ھ کو وہیں مقیم رہے اور اس کے بعد مدینہ واپس آئے۔
مکے کا ایک جاسوس معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا اور یہ پکڑا گیا۔ یہ شخص اس طرح زد میں آیا کہ جب احد کے روز مشرکین واپس چلے گئے تو یہ اپنے چچیرے بھائی عثمان بن عفانؓ سے ملنے آیا۔ حضرت عثمانؓ نے اس کے لیے رسول اکرمؐ سے امان طلب کی۔ آپؐ نے اس شرط پر امان دے دی کہ اگر وہ تین روز کے بعد پایا گیا تو قتل کر دیا جائے گا۔
لیکن جب مدینہ اسلامی لشکر سے خالی ہو گیا تو یہ شخص قریش کی جاسوسی کے لیے تین دن سے زیادہ ٹھہر گیا اور جب لشکر واپس آیا تو بھاگنے کی کوشش کی۔ رسول اکرمؐ نے حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ کوحکم دیا اور انہوں نے اس شخص کا تعاقب کرکے اسے تہ تیغ کردیا۔
(غزوئہ احد اور غزوئہ حمراء الاسد کی مذکورہ تفصیلات ابن ہشام، زاد المعاد، فتح الباری مع صحیح البخاری سے جمع کی گئی ہیں)
٭٭٭٭٭
Next Post