کڑے سفر کا تھکا مسافر (آخری قسط)

0

منصور اصغر راجہ

افغانستان اور افغان طالبا ن سے تو مولانا سمیع الحق شہیدؒ کو عشق تھا اور انہوں نے اپنے اس عشق کو اُس کڑے وقت میں بھی نہیں چھپایا، جب بڑے بڑے شیخ الاسلام پرویز مشرف کی افغانستان مخالف پالیسی کی تائید کرتے ہوئے صلح حدیبیہ کی مثالیں دیتے پھر رہے تھے۔ غزنوی و ابدالی کے دیس سے مولانا سمیع الحقؒ کا یہ عشق وقتی یا اضطراری ہر گز نہیں تھا اور نہ ہی یہ عشق صرف افغان طالبان کے لیے مخصوص تھا۔ انہیں یہ شرف حاصل تھا کہ دارالعلوم حقانیہ کے ’’اولڈ بوائے‘‘ مولانا یونس خالصؒ جب اکوڑہ خٹک میں زیر تعلیم تھے تو انہوں نے ننھے سمیع الحق کو اپنی گود میں کھلایا۔ افغانستان اور افغان قوم سے عشق کی خاطر انہوں نے کیا کیا ستم نہ سہے۔ 2005ء میں وہ ایوان بالا کے رکن تھے اور ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد میں شامل، جو بلجیم جا رہا تھا، لیکن بلجیم حکام نے مولانا سمیع الحق کو برسلز ایئر پورٹ پر یہ کہہ کر روک لیا کہ وہ طالبان کے خالق اور دہشت گردوں کے سرپرست ہیں۔ یورپی یونین کے ارکان نے ان کی موجودگی میں پاکستانی وفد سے ملنے سے انکار کردیا۔ یار لوگوں نے اُن پر Father of Taliban کی پھبتی بھی کسی۔ انہیں یونیورسٹی آف جہاد کا چانسلر بھی کہا گیا۔ حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی کم ظرف دشمن نے ان کے روشن کردار پر کیچڑ اچھالنے کی جسارت کی۔ لیکن اِس عشق کی خاطر وہ زندگی بھر ایسی بے سروپا باتوں کو اپنی مسکراہٹ میں اڑاتے رہے اور مرنے کے بعد بھی ان کی پاکیزہ روح بزبانِ حال یہی کہہ رہی ہے کہ:
چھوڑی نہیں غیروں نے کوئی ناوکِ دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اِس دل میں بجز داغِ ندامت
مولانا سمیع الحقؒ فرمایا کرتے تھے کہ افغانستان گوند سے بھرا ہوا ایسا پیالہ ہے کہ جو بھی اس میں گرے گا، وہ باہر نہیں نکل سکے گا۔ افغانستان کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جو بھی جارح قوت افغانستان پر حملہ آور ہوئی، اسے بہت بے آبرو ہو کر یہاںسے نکلنا پڑا۔ ان کے مدرسے کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ آنجہانی سوویت یونین کے خلاف جہاد میں بھی دارالعلوم حقانیہ کے فیض یافتگان پیش پیش تھے اور 90ء کی دہائی میں جب ملاّ عمر کی قیادت میں وہاں طالبان حکومت قائم ہوئی تو اس کے کئی مرکزی ذمہ دار بھی اکوڑہ خٹک کے ہی فارغ التحصیل تھے۔ جس طرح عالمی شہرت یافتہ جامعات مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو ان کی خدمات کے اعتراف میں اعزاز ی ڈگریاں عطا کرتی ہیں، اسی طرح مولانا سمیع الحق ؒ نے دارالعلوم حقانیہ کی طرف سے ملاّ عمر کو اعزازی ڈگری سے نوازا، کیونکہ ان کے دورِ حکومت میں افغانستان میں مثالی امن قائم ہوا۔ مولانا خود فرمایا کرتے تھے کہ وہ اعزازی ڈگری دراصل ملاّ عمر کی خدمات کا اعتراف تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ طالبان دراصل Students ہی ہیں، لیکن مغرب جان بوجھ کر انہیں طالبان کہہ کر پوری دنیا کو ڈراتا ہے۔ انہوں نے جولائی 2001ء میں ایک فرانسیسی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: ’’طالبان ہماری پشتو زبان میں Student کی جمع ہے، یعنی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ۔ جس طرح فرانس، چین اور دیگر کئی ممالک میں آنے والی انقلابی تبدیلیوںمیں وہاں کے نوجوان خصوصاً طلبہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتے رہے، ویسا ہی کردار طالبان نے افغانستان میں ادا کیا۔ جب افغانستان میں خانہ جنگی حد سے بڑھ گئی تو افغان اسٹوڈنٹس اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، جنہیں یورپ نے ہوّا بنا دیا ہے۔ اگر آپ طالبان کے بجائے انہیں Student کہہ دیں تو آپ کا مسئلہ ختم ہو جائے گا، لیکن جان بوجھ کر طالبان کے لفظ پر اصرار ہے‘‘۔ مولانا سمیع الحق ؒ امریکہ و مغرب کی طرف سے افغان مزاحمتی قوتوں کے لیے دہشت گردی کے الزام کو بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اگست 2002ء میں Reuters کو انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا: ’’ایک ہاتھی ہے اور ایک چیونٹی، ہاتھی، چیونٹی کو روند بھی رہا ہے اور ڈرتا بھی ہے کہ چیونٹی کہیں مجھے کاٹ نہ لے، اور چیخ بھی رہا ہے کہ چیونٹی Terroristہے‘‘۔ اگر ’’صلیبی دہشت گردی اور عالم اسلام‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ سترہ اٹھارہ برس پہلے مولانا سمیع الحق ؒ نے جو باتیں کہیں، وہ آج درست ثابت ہو رہی ہیں، جس کی ایک مثال جنرل (ر) پرویز مشرف ہے۔ انہوں نے اکتوبر2001ء میں ایک روسی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’خدا نے چاہا تو یہ دینی جماعتیں بھی رہیں گی، یہ مدارس بھی قائم رہیں گے اور یہ جہاد بھی جاری رہے گا، لیکن یہ (پرویز مشرف) اپنے سر پر خاک ڈال کر اسی حسرت کے ساتھ چلا جائے گا اور قوم کے سامنے بھی شرمندہ ہو گا اور حق تعالیٰ کے سامنے بھی‘‘۔
مولانا سمیع الحق ؒ استعماری قوتوں کو افغانستان میں قیامِ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ امریکہ کی طرف سے مذاکرات کی باتیں محض زبانی جمع خرچ ہے۔ گزشتہ برس انہوں نے ’’تکبیر‘‘ کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے ہمارے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: ’’افغان طالبان بات چیت کرنے کے لئے تیار ہیں، مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے پہلے کوئی بنیاد تو فراہم کی جائے۔ اب امریکہ فوجوں سمیت افغانستان میں بیٹھا ہوا ہے۔ طالبان کہتے ہیں کہ اس کے ہوتے ہوئے ہم تیس چالیس لاکھ افغان شہدا کی قربانی کس طرح ضائع کریں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ پہلے ہمیں مل کر غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکالنا چاہئے تاکہ طالبان سے مذاکرات کے لئے راہ ہموار ہو سکے۔ کیونکہ یہ ایک سادہ سا اصول ہے کہ جب تک کنویں میں نجاست پڑی رہے، کنواں پاک نہیں ہوسکتا۔ اس لئے جب تک امریکی و نیٹو فوجیں افغانستان میں موجود ہیں، طالبان سے مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکہ و مغرب خود بھی ان مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتے کہ مسلمان آپس میںبات چیت کے ذریعے اپنے مسائل حل کریں۔ مذاکرات کے ذریعے تو امن قائم ہوتا ہے اور ان استعماری قوتوں کے لئے امن کا قیام موت ہے۔ اس وقت مسلمانوں میں جتنی نسلی، لسانی اور علاقائی لڑائیاں جاری ہیں، وہ ان استعماری قوتوں کی وجہ سے ہی ہیں۔ اس لئے مذاکرات انہیں اچھے نہیں لگتے۔ اگرچہ وہ مذاکرات کا نام بھی لیتے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کی خواہش بھی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب زبانی جمع خرچ ہے۔ وہ اسی سلسلے میں میرے پاس بھی آئے تھے تو میں نے ان سے کہا کہ افغان طالبان سے بات چیت کے لئے آپ کے پاس ایجنڈا کیا ہے تا کہ ہم زمینی حقائق کے مطابق بات کو آگے بڑھائیں تو وہ اس بات کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ دوسری طرف افغان طالبان کا یہ مؤقف ہے کہ ہم افغانستان کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں 30,40 لاکھ افغانوں کی شہادتیں ہوئیں۔ ہم ان شہادتوں کو کیسے رائیگاں جانے دیں۔ ہماری تو آزادی ہی امریکہ اور نیٹو افواج نے سلب کر رکھی ہے۔ امریکہ نے اب روس کی جگہ لے لی ہے تو اگر روس کے خلاف لڑنا ٹھیک تھا تو اب امریکہ و نیٹو کے خلاف ہم کیسے بیٹھ جائیں۔ اس لئے میں نے افغان حکومت سے یہی کہا ہے کہ اگر آپ لوگ طالبان سے کامیاب مذاکرات چاہتے ہو تو پہلے امریکہ و نیٹو کو یہاں سے نکالو۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمیں پہلے آپس میں بات چیت کر کے ملک میں امن قائم کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ہم امریکہ سے کہیں گے کہ وہ اب یہاں سے جائے۔ میں نے کہا کہ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ ہم کہیں گے تو امریکہ چلا جائے گا۔ کیونکہ اس خطے میں اسے اپنے قیام کے لئے مزید جواز مل گئے ہیں۔ اب یہاں چین ہے، سی پیک منصوبہ ہے اور بھارت کے مسائل ہیں، اس لئے امریکہ تو یہاں سے خود سے نہیں جانا چاہے گا۔ دراصل طالبان کوئی شراکت اقتدار کے لئے تو جنگ نہیں لڑ رہے کہ انہیں دو چار وزارتیں مل جائیں گی تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائیں گے۔ وہ تو افغانستان کی آزادی اور اسلام کے نفاذ کے لئے لڑ رہے ہیں۔‘‘ افسوس! وہ مرد مجاہد اب ہم میں نہیں رہا کہ جس کا دل ہر لحظہ اسلام، پاکستان، افغانستان اور مسلم امہ کے لیے دھڑکتا تھا۔
مولانا حافظ نور محمد ؒ ضلع گجرات کے معروف بزرگ عالم دین اور اولیاء میں سے تھے۔ قریباً نوے برس کی عمر پائی۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ کے شاگرد تھے۔ ساری زندگی توحید و سنت کی روشنی پھیلانے اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں گزری۔ اخیر عمر میں طبیعت پر شوقِ شہادت کا اِس قدر غلبہ تھا کہ اپنے معتقدین سے فرمایا کرتے: ’’میں اب عمر کے اس حصے میں ہوں کہ جہاد کے لیے محاذ پر نہیں جا سکتا۔ سارا دن مسجد کے صحن میں بیٹھا رہتا ہوں۔ دعا کرو کہ کوئی کافر یہیں آ کر مجھے بم مار جائے‘‘۔ اکیاسی برس کی عمر میں مولانا سمیع الحقؒ کی اپنے گھر کے اندر مظلومانہ شہادت بھی کسی ایسی ہی خواہش بلکہ دعا کا اثر دکھائی دیتی ہے، کیونکہ انہوں نے ساری زندگی جہاد کی تعلیم دینے اور مجاہدین کی سرپرستی کرنے میں گزاری۔ ان کے دل میں شہادت کی کس قدر تمنا ہو گی کہ رب نے خلعتِ شہادت ان کے گھر ہی بھیج دی۔ شاید رب کو یہ منظور نہ تھا کہ جہاد کو مسلم امہ کے تمام مسائل کا واحد حل قرا ر دینے والا وہ بوڑھا مجاہد اس بڑھاپے میں شہادت کی موت پانے کے لیے کہاں میدانِ جہاد میں مارا مارا پھرتا۔
لیکن اس باریک نکتے کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے وہ طبقہ تہی دامن ہے، جس نے مولانا کی شہادت کے بعد بھی اُن کے کردار پر چھینٹے اُڑانے کی سعی کی ہے۔’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ (حصہ دوم) میں شامل بابائے اردو مولوی عبد الحق ؒ کے خاکے میں پروفیسر رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ ’’بڑے مقاصد کی بھی زندگی ہوتی ہے، لیکن ہوتی ہے ہماری آپ کی زندگی سے علیحدہ، جس پر کبھی موت بھی طاری نہیں ہوتی‘‘۔ مولانا سمیع الحق ؒ تو اپنے اعمال کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے، لیکن جن مقاصد کے لیے وہ عمر بھر جدوجہد میں مصروف رہے، انہیں موت آنی ہے، نہ آئے گی۔
کڑے سفر کا تھکا مسافر، تھکا ہے ایسے کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں، ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More