بزرگ حضرت جنید بغدادیؒ پہلے پہل ایک مشہور پہلوان تھے۔ وقت کے بڑے بڑے سورما ان کی طاقت اور فن کا لوہا مانتے تھے۔ ڈیل ڈول، قدو قامت اور رعب و دبدبے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ ساری مملکت میں ان کا کوئی حریف نہ تھا۔ انہیں خلیفہ کے دربار میں خاص کرسی ملتی۔ جہاں وہ بڑی شان و شوکت کے ساتھ خلیفہ کے دائیں طرف بیٹھتے۔ ایک دفعہ دربار لگا ہوا تھا کہ ایک چوب دار نے آکر اطلاع دی کہ ایک لاغر و نیم جاں شخص آیا ہے اور برابر اصرار کر رہا ہے کہ میرا چیلنج جنید تک پہنچا دیں کہ میں اس سے کشتی کرنا چاہتا ہوں۔
خلیفہ وقت اور اہل دربار کا تجس بڑھا۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ اسے حاضر کیا جائے۔ تھوڑی دیر بعد وہ شخص حاضر ہوا۔ ضعف و نقاہت سے اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ خلیفہ نے پوچھا ’’کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’جنید سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں؟‘‘ اس شخص نے جواب دیا۔
اسے بہت سمجھایا گیا کہ ساری ریاست میں جنید کا کوئی مد مقابل نہیں۔ ایسی مضحکہ خیز بات نہ کرو کہ دنیا تمہارا تماشا دیکھے۔ وہ شخص بار بار اصرار کرتا رہا۔ آخر کشتی کا وقت مقرر ہوگیا۔ ہر جگہ اس مقابلے کا تذکرہ ہونے لگا۔ آخر کار وقت مقررہ پر بغداد کے وسیع تر میدان میں لاکھوں تماشائی اکٹھے ہوگئے۔ مقابلہ شروع ہوا تو حضرت جنیدؒ نے زور آزمائی کے لیے پنجہ بڑھایا۔ اجنبی شخص نے دبی زبان سے کہا کان قریب لائیے! مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔
حضرت جنیدؒ نے اپنا کان اس شخص کے قریب کیا تو اس نے کہا میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ایک سید گھرانے کا فرد ہوں۔ غربت کا یہ عالم ہے کہ سیدانیوں کے جسم پر کپڑے بھی سلامت نہیں۔ بچے بھوک کی شدت سے نڈھال ہیں۔ خاندانی شرم وحیا کی وجہ سے کسی سے بھیک بھی نہیں مانگ سکتا۔ آج اگر تم مجھ سے چاروں شانے چت ہو جاؤ تو میری آبرو بچ جائے گی۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ کل میدان قیامت میں نانا جان (حضور نبی کریمؐ) سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا۔
حضرت جنیدؒ یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اس کے ہاتھوں دوسرے ہی لمحے چاروں شانے چت ہوگئے۔ لوگوں نے اس شخص کے حق میں تحسین و آفرین کے نعرے لگانے شروع کردیئے اور اس پر انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خلیفہ وقت نے بھی اسے بے شمار انعامات سے نوازا۔ اسی رات حضرت جنیدؒ کو خواب میں حضور نبی کریمؐ کی زیارت ہوئی۔
آپؐ نے انہیں اپنے مبارک سینے سے لگاتے ہوئے فرمایا: جنید! تم نے میرے خاندان کے ایک فرد کی عزت و آبرو کا تحفظ کیا اور خود شکست سے دوچار ہوگئے۔ اس کے صلے میں تمہارے لیے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں علم و فرمان کی مسند پر فائز کیا جاتا ہے۔
برادران گرامی! غور فرمائیے، آل رسولؐ میں سے کسی کی عزت و آبرو کے لیے قربانی دینے کا اتنا بڑا صلہ ہے اور اگر کوئی شخص خود حضور نبی کریمؐ کی عزت و ناموس کے تحفظ کے لیے کوئی قربانی دیتا ہے تو اس پر رب تعالیٰ کی رحمتوں اور نوازشات کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے؟(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post