مجھے کوالالمپور کی چوکٹ مارکیٹ اور مسجد انڈیا کے علاقے میں قریباً بارہ بجے پہنچ کر فوٹو گرافی کرنی تھی۔ جس میں دو ڈھائی گھنٹے باقی تھے۔ وقت گزارنے کے لئے علی مجھے اپنی ملائیشیا ساختہ کار ’’پروٹان‘‘ میں بٹھا کر کوالالمپور کی سڑکوں کی سیر کرانے کے لئے ڈرائیونگ کرتے رہے۔ میں ان سڑکوں پر چلتے ہوئے ماضی کی یادیں تازہ کرنا چاہتا تھا۔ غالباً 1968ء میں پہلی مرتبہ میرا کوالالمپور آنا ہوا تھا۔ جب چین جاتے یا وہاں سے واپس آتے ہوئے ہمارے جہاز نے دو دن کے لئے پورٹ کلانگ میں لنگر گرایا تھا۔ ان دنوں میں پورٹ کلانگ کو انگریزوں کے دیئے ہوئے ’’پورٹ سویٹن ہام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
کوالالمپور، کراچی کی طرح سمندر کے ساحل پر نہیں ہے۔ یہاں سے سمندر، یعنی پورٹ کلانگ اتنے فاصلے پر ہے جیسے کراچی سے پورٹ قاسم۔ لیکن اب پورٹ کلانگ اور کوالالمپور کے درمیان کوئی دوری نہیں رہی۔ آبادی اس طرح مل کر ایک شہر کی شکل اختیار کر چکی ہے، جیسے کراچی اور پورٹ قاسم ایک ہوگئے ہیں۔ بہرحال میں اپنے جہاز کے ذریعے 1981ء تک کوالالمپور اور ملائیشیا کی دیگر بندرگاہوں پینانگ اور جوہر بارو آتا رہا۔ اس کے بعد 1991ء تک کوالالمپور کے قریبی شہر ملاکا میں میری مستقل رہائش رہی۔
ملاکا اور کوالالمپور کے درمیان 124 کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ ہم تعطیل میں یا سرکاری میٹنگیں اٹینڈ کرنے کے لئے کوالالمپور جاتے رہتے تھے اور ان ہی سڑکوں پر اپنی کار دوڑاتے رہتے تھے۔ آج ان ہی سڑکوں پر قائم میڈیکل کے آلات اور Equipment سپلائی کرنے والی کمپنی فراگو امپکس اور نقش انٹر پرائز کمپنی کے ڈائریکٹر غلام علی سولنگی مجھے سیر کرانے کے لئے اپنی گاڑی دوڑا رہے تھے۔ آج انہوں نے میری وجہ سے آفس نہ جانے کا ارادہ کرلیا تھا۔ انہوں نے موبائل فون کے ذریعے اپنے پاکستانی اسسٹنٹ اور ملئی ملازمین کو ضروری ہدایات دے دی تھیں۔
’’علی! یہ تو بتائیں کہ آپ یہاں کب اور کیسے آئے؟‘‘
اچانک میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا اور میں ان سے پوچھ بیٹھا۔
’’میں پہلے یہاں نہیں آیا تھا‘‘۔ علی نے جواب دیا۔
’’پھر…؟‘‘
’’میں پہلے سنگاپور آیا تھا‘‘۔ یہ کہہ کر علی نے کچھ سوچتے ہوئے مجھ سے پوچھا ’’میں آپ کو اپنی زندگی کے بارے میں شروع سے بتاؤں؟‘‘
’’ضرور!‘‘ میں نے کہا۔ ’’موقع مناسب ہے۔ میں توجہ سے سن اور نوٹ کر سکتا ہوں‘‘۔
’’میں روہڑی سیمنٹ فیکٹری کالونی کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ میرے والد میرے بچپن ہی میں فوت ہوگئے تھے اور مجھے میرے رشتے دار بڑی مشکل سے سات جماعت تک تعلیم دلوا سکے‘‘۔
علی نے بتایا کہ انگریزوں کے زمانے سے قائم اس روہڑی سیمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والے انجینئر، مکینک، فورمین، فٹرز وغیرہ کی رہائش فیکٹری کے اندر قائم کالونی میں تھی۔ وہاں ایک اسکول بھی تھا۔ رضا محمد عرشی نامی ایک ٹیچر نے علی کی غربت اور ذہانت کو دیکھتے ہوئے ان کی تعلیم کی ذمہ داری اپنے سر لی۔ پھر علی نے ناصرف اس اسکول سے میٹرک کرلیا بلکہ عرشی صاحب کی معاونت اور رہنمائی سے انہوں نے شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور سے بی اے بھی کرلیا۔ وہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے خواہش
مند تھے۔ اس کے لئے انہوں نے سوچا کہ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے وہ کوئی جز وقتی ملازمت کریں گے۔ لیکن جب وہ بی اے کی تیاری کررہے تھے تو ایک واقعہ رونما ہوا…
’’ہمارے اسکول کے ایک دوسرے ٹیچر، جو مجھے پسند کرتے تھے، انہوں نے اپنی بیٹی کے رشتے کی بات میری والدہ سے کی‘‘۔ علی نے بتایا ’’ہم بہت خوش ہوئے۔ کیونکہ وہ ہمارے غربت زدہ حالات سے بخوبی واقف تھے اور ایک ہی کالونی میں رہائش کے سبب ایک دوسرے کے بارے میں جانتے تھے۔ پہلی ہی سے ایک دوسرے کے گھر میں ہمارا آنا جانا اور تعلق ایسا تھا جیسے گاؤں گوٹھوں میں ایک برادری کے درمیان ہوتا ہے۔ ہماری منگنی ہوگئی۔ چند ماہ کے بعد جیسے ہی میرا بی اے کا رزلٹ آیا، لڑکی کے والد نے دباؤ ڈالنا شروع کردیا کہ فوراً شادی ہونی چاہئے۔ انہوں نے دوسری شرط یہ عائد کردی کہ میں کوئی ملازمت تلاش کروں۔ ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کریں؟ ہماری گزر بسر بڑی مشکل سے ہورہی تھی، شادی کے اخراجات کا انتظام کہاں سے کرتے؟ فوری طور پر ملازمت کا ملنا بھی آسان نہ تھا۔ خاص طور پر ایسے نوجوان کے لئے جو محض بی اے ہو، جس کے پاس کوئی سفارش اور واقفیت نہ ہو۔‘‘
’’بہرحال میں ملازمت کے حصول کے لئے کراچی آگیا۔ جہاں میں نے اپنی سی کوشش کر ڈالی، مختلف اداروں، وزیروں اور سیاستدانوں کے گھر کے چکر لگا کر جوتیاں گھس گئیں، لیکن مراد حاصل نہ کر سکا۔ اس دوران گھر واپس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میری غیر موجودگی میں لڑکی کے والد نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی اپنے رشتے داروں سے کر کے اسے پنجاب رخصت کر دیا ہے‘‘۔
علی نے بتایا کہ اس بات کا انہیں، ان کی والدہ اور عزیزوں کو بہت صدمہ ہوا۔ نہ صرف علی کے دل میں لڑکی کے لئے محبت پیدا ہو چکی تھی، بلکہ لڑکی نے بھی ذہنی طور پر خود کو علی سے منسوب کرلیا تھا۔ اس قدر کہ شادی کے وقت لڑکی نے اپنے والد سے کہا تھا کہ وہ ان کی خواہش بلکہ جبر کے سامنے بے بس ہوکر اس شادی سے انکار تو نہیں کرسکتی لیکن وہ آئندہ کبھی اپنے والد کی صورت نہیں دیکھے گی۔
گاؤں کے ماحول میں لڑکی کے والدین کا بغیر کوئی سبب بیان کئے اس طرح Ignore کرنا علی اور ان کے گھر والوں کے لئے بے عزتی کا سبب بنا تھا۔
’’اس حد تک کہ میں نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا تھا‘‘۔ علی نے بتایا۔ ’’ہم لوگوں سے آنکھیں ملانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ ہماری غربت نے ہمارا مذاق اڑایا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی نئی جگہ رہائش اختیار کرنی چاہئے، جہاں کسی کو ان معاملات کا علم نہ ہو… لیکن یہ بھی آسان نہ تھا۔ اس کے لئے بھی رقم درکار تھی۔ جو ہمارے پاس نہیں تھی۔ انہی دنوں میں میرا دوست بشیر احمد چنا مجھ سے ملنے آیا۔ وہ اور اس کا بھائی روزگار کی تلاش میں پردیس جا کر قسمت آزمانا چاہتے تھے۔ اس نے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔ میں نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ میرے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ کسی دوسرے ملک جانے کے لئے ہوائی جہاز کرائے کا انتظام کرسکوں… حتیٰ کہ میرے پاس پاسپورٹ بنوانے کی فیس بھی نہیں ہے۔ بہرحال اس نے میرے ٹکٹ اور پاسپورٹ کے اخراجات میں مدد کی۔ پھر ہم سنگاپور آگئے‘‘۔
’’یہ کس سن کی بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ 1994ء کی بات ہے۔ ریٹرن ٹکٹ خریدنے پر ہمارے ملک سے آسانی سے ویزا مل جاتا تھا‘‘۔ علی نے بتایا۔
’’پھر، سنگاپور پہنچ کر آپ نے کیا کام کیا؟‘‘
’’ہمیں مصطفی سینٹر (اسٹور) کے گداموں میں ٹرکوں سے مال اتارنے کا کام مل گیا تھا۔ اس دکان کے پیچھے ہی تنگ گلیوں میں گھر کا ایک کمرہ کرائے پر لے کر ہم اس میں رہنے لگے تھے‘‘۔ علی نے بتایا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post