پارہ27، سورۃ الطور، آیت29تا49ترجمہ
مولانا مفتی محمد شفیع ؒ (مفتی اعظم پاکستان)
(جب آپ پر مضامین واجب التبلیغ کی وحی کی جاتی ہے، جیسے اوپر ہی جنت و دوزخ کے مستحقین کی تفصیل کی گئی ہے) تو آپ (ان مضامین سے لوگوں کو) سمجھتے رہئے، کیونکہ آپ بفضلہ تعالیٰ نہ تو کاہن ہیں اور نہ مجنون ہیں (جیسا مشرکین کا یہ قول سورۃ الضحیٰ کی شان نزول میں منقول ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ کاہن نہیں ہو سکتے، کیونکہ کاہن شیاطین سے خبریں حاصل کرتا ہے اور آپ کا شیطان سے کوئی واسطہ نہیں اور ایک آیت میں آپ سے جنون کی نفی کی گئی ہے، مطلب یہ کہ آپ نبی ہیں اور نبی کا کام ہمیشہ نصیحت کرتے رہنا ہے، گو لوگ کچھ ہی بکیں) ہاں کیا یہ لوگ (علاوہ کاہن اور مجنون کہنے کے آپ کی نسبت) یوں (بھی) کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں (اور) ہم ان کے بارے میں حادثہ موت کا انتظار کر رہے ہیں (جیسا در منثور میں ہے کہ قریش دار الندوہ میں مجتمع ہوئے اور آپ کے بارے میں یہ مشورہ قرار پایا کہ جیسے اور شعراء مر کر ختم ہوگئے، آپ بھی ان ہی میں کے ایک ہیں، اسی طرح آپ بھی وفات پا جائیں گے تو اسلام کا قصہ ختم ہو جائے گا) آپ فرما دیجئے (بہتر) تم منتظر رہو سو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں (یعنی تم میرا انجام دیکھو، میں تمہارا انجام دیکھتا ہوں، اس میں اشارۃً پیش گوئی ہے کہ میرا انجام فلاح و کامیابی ہے اور تمہارا انجام خسارہ اور ناکامی ہے اور یہ مقصود نہیں کہ تم مرو گے میں نہ مروں گا، بلکہ ان لوگوں کا جو اس سے مقصود تھا کہ ان کا دین چلے گا نہیں، یہ مر جاویں گے تو دین مٹ جاوے گا، جواب میں اس کا رد مقصود ہے، چنانچہ یوں ہی ہوا اور یہ لوگ جو ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں تو) کیا ان کی عقلیں (جس کے یہ بڑے مدعی ہیں) ان کو ان باتوں کی تعلیم کرتی ہیں یا یہ ہے کہ یہ شریر لوگ ہیں (ان کا مدعی عقل و دانش ہونا ان کے قول سے ثابت ہے۔ اور معالم کی نقل سے اس کی اور تائید ہوتی ہے کہ عظمائے قریش لوگوں میں بڑے عقلمند مشہور تھے، پس اس آیت میں ان کی عقل کی حالت دکھلائی گئی ہے کہ کیوں صاحب بس یہی عقل ہے جو ایسی تعلیم دے رہی ہے اور اگر یہ عقل کی تعلیم نہیں ہے تو نری شرارت اور ضد ہے) (جاری ہے)