نبی کریمؐ کے سچے عاشق صحابہ کرامؓ تھے۔ جو آپؐ کے اشارئہ ابرو پر مر مٹنے کو سعادت سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ آں حضرتؐ خطبہ دے رہے ہیں اور مسجد میں کچھ لوگ کھڑے ہوئے ہیں، آں حضرتؐ نے دوران خطبہ ان لوگوں کو بیٹھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔
اس دوران سیدنا ابن مسعودؓ باہر سڑک پر مسجد کی طرف آرہے تھے، آپؓ نے جیسے ہی یہ الفاظ سنے تو فوراً سڑک پر ہی بیٹھ گئے۔
خطبہ کے بعد آں حضرتؐ سے ملاقات ہوئی تو آں حضرتؐ نے فرمایا کہ میں نے بیٹھنے کا حکم تو مسجد میں کھڑے ہوئے لوگوں کو دیا تھا، آپ کیوں بیٹھ گئے تھے؟ حضرت ابن مسعودؓ نے جواب دیا: آپؐ کا حکم کان میں پڑ جائے، پھر ابن مسعودؓ کی کیا مجال تھی کہ وہ ایک قدم بھی آگے بڑھا دیتا۔ (اصلاحی خطبات)
مریض کی عیادت!
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اکرمؐ کے ساتھ بیٹھے تھے، اسی اثنا میں انصار کا ایک آدمی آیا اور اس نے نبی کریمؐ کو سلام کیا، جب وہ واپس جانے لگا تو رسولؐ نے فرمایا: سعد بن عبادہ کا حال بتاؤ؟ (وہ بیمار تھے)۔
اس انصاری نے جواب دیا کہ وہ ٹھیک ہیں، رسول اکرمؐ نے مجلس والوں سے فرمایا کہ تم میں سے کون لوگ سعدؓ کی عیادت کو چلیں گے؟ پس نبی کریمؐ اٹھے اور ہم بھی آپؐ کے ساتھ جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم دس سے زیادہ آدمی تھے، نہ تو ہمارے پیروں میں جوتے تھے، نہ چمڑے کے موزے تھے اور نہ جسم پر کرتے تھے (بلکہ غربت کی وجہ سے معمولی چادریں تھیں) اسی حالت میں ہم چلتے رہے، یہاں تک کہ سعدؓ بن عبادہ کے پاس پہنچ گئے، ان کے گھر کے لوگ ان کے پاس سے ہٹ گئے اور رسول اکرمؐ اور آپؐ کے ساتھ جو لوگ تھے، ان کے قریب گئے اور عیادت کی۔ (زاد راہ)
آخرت میں کام آنے والے اعمال!
حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ایک مسلمان بدو حضور اکرمؐ کے پاس آیا اور اس نے کہا: حضورؐ! مجھے ایسے کام بتا دیجیے، جس کو کرکے مجھے جنت مل جائے، نبی کریمؐ نے فرمایا اگرچہ تو نے الفاظ بہت مختصر بولے ہیں، لیکن بات بڑی پوچھی ہے۔ پھر آں حضرتؐ نے فرمایا: خدا کی جنت میں جانا چاہتے ہو تو کسی جان کو آزاد کراؤ اور گردنوں کو غلامی کی رسی چھڑاؤ۔ اس نے کہا یہ دونوں تو ایک ہی بات ہوئی۔
آپؐ نے فرمایا نہیں، یہ دونوں ایک بات نہیں، جان کو آزاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم کسی غلام یا باندی کو مکمل طور پر آزاد کر دو اور اس پر جو رقم صرف ہو وہ پوری رقم تم اپنی جیب سے دو اور گردن چھڑانے کا مفہوم یہ ہے کہ تم اپنی دو دھاری اونٹنی کو کسی کو دودھ پینے کے لیے بخش دو۔
تیسرا کام یہ ہے کہ قطع تعلق کرنے والے رشتے داروں کے ساتھ تم اپنے تعلقات جوڑو، اگر یہ سب جنتی کام تم نہ کر سکو تو بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، پیاسوں کو پانی پلاؤ، لوگوں کو بھلی بات بتاؤ اور بری بات سے روکو اور اگر یہ بھی نہ کر سکو تو اپنی زبان کی حفاظت کرو اور صرف اچھی بات زبان سے نکالو۔(زادراہ صفحہ نمبر 13)
Prev Post
Next Post