ولی کامل کی تلاش

0

اپنے وقت کے ایک ولی سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے کبھی کسی ولی کو دیکھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں ابھی دو دن پہلے ہی ریلوے اسٹیشن پر دیکھا ہے۔ ہماری گاڑی جیسے ہی رکی تو قلیوں نے دھاوا بول دیا اور ہر کسی کا سامان اٹھانے اور اٹھا اٹھا کر بھاگنے لگے، لیکن میں نے ایک قلی کو دیکھا کہ وہ اطمینان سے نماز میں مشغول ہے۔
جب اس نے سلام پھیرا تو میں نے اسے سامان اٹھانے کو کہا۔ اس نے سامان اٹھایا اور میری مطلوبہ جگہ پر پہنچا دیا۔ میں نے اسے ایک روپیہ کرایہ ادا کر دیا۔ اس نے چار آنے اپنے پاس رکھے اور باقی مجھے واپس کردیئے۔
میں نے اس سے کہا کہ ایک روپیہ پورا رکھ لو، لیکن اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: نہیں صاحب! میری مزدوری چار آنے ہی بنتی ہے۔
آپ یقین کریں ہم سب ولی بننے اور ولیوں کو ڈھونڈنے میں دربدر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مشکل ترین ریاضتوں، مشقتوں اور مراقبوں سے گزرنا پڑے گا۔ سار ی ساری رات نوافل میں گزارنی پڑے گی یا شاید گلے میں تسبیح ڈال کر میلے کچیلے کپڑے پہن کر ’’ھو‘‘ کی صدائیں لگانا پڑیں گی، تب ہم ولی کے درجے پر پہنچ جائیں گے۔ آپ کمال ملاحظہ کریں ہماری آدھی سے زیادہ قوم بھی اس کو ہی’’پہنچا‘‘ ہوا سمجھتی ہے جو ابنارمل حرکتیں کرتا نظر آئے گا۔ جو رومال میں سے کبوتر نکال دے یا عاشق کو آپ کے قدموں میں ڈال دے۔
خدا کا دوست بننے کے لئے تو اپنی انا کو مارنا پڑتا ہے۔ قربانی، ایثار اور انفاق کو اپنی ذات کا حصہ بنانا پڑتا ہے۔ اشفاق صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنے ابا جی سے پوچھا کہ عشق مجازی اور عشق حقیقی میں کیا فرق ہے؟ انہوں نے کچھ دیر سوچا اور کہنے لگے ’’بیٹا! کسی ایک کے آگے اپنی انا کو مارنا عشق مجازی ہے اور ساری دنیا کے سامنے اپنی انا کو مار لینا عشق حقیقی ہے۔‘‘
جنید بغدادیؒ اپنے وقت کے نامی گرامی شاہی پہلوان تھے۔ ان کے مقابلے میں ایک دفعہ انتہائی کمزور، نحیف اور لاغر شخص آگیا۔ میدان تماشائیوں سے بھرا ہوا تھا۔ بادشاہ اپنے پورے درباریوں کے ساتھ جنید بغدادی کا مقابلہ دیکھنے آچکا تھا۔مقابلہ شروع ہونے سے پہلے وہ کمزور آدمی جنید بغدادی کے قریب آیا اور کہا دیکھو جنید! کچھ دنوں بعد میری بیٹی کی شادی ہے، میں انتہائی غریب اور مجبور ہوں۔ اگر تم ہار گئے تو بادشاہ مجھے انعام و اکرام سے نوازے گا۔ لیکن اگر میں ہار گیا تو اپنی بیٹی کی شادی کا بندوبست کرنا میرے لئے مشکل ہوجائے گا۔
مقابلہ ہوا اور جنید بغدادیؒ جان بوجھ کر ہار گئے۔ بادشاہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے دوبارہ اور پھر سہ بارہ مقابلہ کروایا اور تینوں دفعہ ہار جنید بغدادی کے حصے میں آئی۔
بادشاہ نے سخت غصے میں حکم دیا جنید کو میدان سے باہر جانے والے دروازے پر بٹھا دیا گیا اور تمام تماشائیوں کو حکم دیا گیا کہ جو جائے گا کہ جنید پر تھوکتا ہوا جائے گا۔
جنید بغدادیؒ کی انا خاک میں مل گئی، لیکن ان کی ولایت کا فیصلہ قیامت تک کے لئے آسمانوں پر سنا دیا گیا۔
ولی تو وہ ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کردے۔ جو کسی کو جینے کی امنگ دیدے۔ چہرے پر خوشیاں بکھیر دے۔ جب کبھی بحث کا موقع آئے تو اپنی دلیل اور حجت روک کر سامنے والے کے دل کو ٹوٹنے سے بچالے۔ اس سے بڑا ابدال بھلا کون ہوگا؟(جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More