امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پاکستان کی امداد روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امریکا کیلئے کچھ نہیں کرتا۔ اس لئے ہم نے اس کی ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی امداد روک دی ہے۔ پاکستان نے اسامہ بن لادن کو اپنے ملک میں رکھا، جس کا سب کو علم تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو ایک بار پھر نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمارے لئے کچھ نہیں کرتا۔ ایک امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان میں ہر ایک کو معلوم تھا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں اکیڈمی کے قریب رہتے ہیں؟ لیکن امریکا سے یہ بات چھپائی گئی۔ امریکن صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی امداد اور قرضے روکنے کی دھمکیاں اس سے قبل بھی کئی مرتبہ سامنے آچکی ہیں، لیکن امریکا کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے سنجیدہ ارکان اور محکمہ خارجہ و دفاع کے حکام انہیں باور کراتے ہیں کہ عالمی سیاست، بالخصوص جنوبی ایشیا میں پاکستان کی مخالفت یا دشمنی امریکی مفادات کے منافی ہوگی۔ افغانستان کی جنگ میں سترہ سال سے پھنسے ہوئے امریکی و اتحادی فوجی وہاں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔ وہ بصد ذلت و رسوائی ایک جانب انہی طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہیں، جن کو وہ تسلیم کرنا تو درکنار، افغانستان سے ان کے وجود کو مٹانے کے درپے تھے۔ دوسری طرف امریکا کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈن فورڈ اعتراف کر رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان نے امریکا سے شکست نہیں کھائی، بلکہ سترہ سال کی جنگ کے بعد بھی آج ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔ طالبان اگر امریکا سے بات چیت کے لئے تیار ہو جائیں تو یہ ہماری بڑی کامیابی ہو گی، جنگ ہر مسئلے کا حل نہیں۔ امریکی حکام کو اندازہ ہے کہ ان کے فوجیوں کی افغانستان سے بحفاظت واپسی کے لئے بہر حال اسے پاکستان کی مدد درکار ہو گی۔ اسی طرح افغانستان میں قیام امن کی کوئی کوشش پاکستان کے تعاون کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نہ صرف خطے کا بلکہ مسلم دنیا کا ایک اہم ملک اور ایٹمی قوت ہے، لہٰذا امریکا کی کوئی حکومت اسے نظر انداز نہیں کر سکتی۔ امریکی صدر ڈونالڈ پاکستان کے خلاف نفرت و عداوت کا کتنا اور کیسا ہی اظہار کریں، امریکا کی مقتدر قوتیں انہیں اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو یوں بھی امریکا اور عالمی برادری میں ایک ایب نارمل (کھسکا ہوا) صدر سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کو ان کے الٹے سیدھے بیانات پر تشویش کا اظہار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کم و بیش اڑسٹھ سال کے پاک و امریکا تعلقات کے تناظر میں کئی امریکی صدور اور حکومتوں نے اسلام اور پاکستان دشمنی کا مظاہرہ کیا، لیکن وہ خطے اور دنیا میں پاکستان کی اہمیت اور کردار کو مستقل طور پر نظر انداز نہیں کر سکے اور انہیں بار بار پلٹ کر پاکستان کی جانب آنا پڑا۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان پر پاکستان کی حکومت اور سیاستدانوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک آزاد و خود مختار ستاون مسلم ممالک کی قیادت کا اہل اور جوہری توانائی کا حامل ملک ہے۔
نائن الیون کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے انسداد دہشت گردی کے نام پر افغانستان اور پاکستان میں جس بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا، اس میں پاکستان کے تقریباً پچھتر ہزار شہریوں اور فوجیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس عظیم جانی نقصان کے علاوہ پاکستانی معیشت کو ایک کھرب تیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کے بدلے میں امریکا نے صرف بیس ارب ڈالر کی امداد دی۔ اس کا بھی بیشتر حصہ امریکی و اتحادی فوجیوں کی نقل و حرکت اور فوجی سازو سامان کی ترسیل پر خرچ ہو گیا۔ راہداری کے اس عمل میں پاکستان کی اہم شاہراہیں اور عمارتیں الگ سے تباہ و برباد ہوئیں۔ پاکستان کے اس بڑے جانی و مالی نقصان کا لحاظ نہ کرنے والا امریکی صدر اگر ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی امداد روکنے کی دھمکی دیتا ہے تو پاکستان کو خود اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دینا چاہئے۔ مگر ہماری مشکل یہ ہے کہ ایک کے بعد دوسری ایسی حکومت عوام پر مسلط ہوئی ہے جو قومی غیرت اور امداد کی بھیک نہ لینے کی باتیں تو کرتی ہے، لیکن قومی دولت کے لٹیروں سے لوٹی ہوئی رقوم واپس نہ لینے کی جرأت نہ پا کر بالآخر بیرونی ممالک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے سود خور اداروں کی کڑی شرائط کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ حالانکہ وہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کی تائید و حمایت حاصل کرے تو ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی امریکی امداد کو لات مار کر ملکی وسائل اور چند خاندانوں سے اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقم حاصل کر سکتی ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو پاکستان سے شکایت ہے کہ وہ امریکا کے لئے کچھ نہیں کرتا تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ امریکی و اتحادی افواج افغان مجاہدین کے ہاتھوں زبردست شکست سے دوچار ہونے کے بعد یہ توقع کرتی ہیں کہ پاکستانی فوج اپنے افغان مسلمانوں بھائیوں کو ہلاک کرنے میں ان کے ساتھ تعاون کرے تو امریکا کو افغانستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے بعد امریکا اب طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہوا ہے تو اس میں بھی وہ پاکستان سے تعاون کا طلب گار ہے۔ پاکستان تو ہمیشہ طالبان کو افغانستان کی سب سے اہم قوت قرار دے کر امریکا کو ان کے ساتھ گفت و شنید پر آمادہ کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ امریکا سات سمندر پار سے یہاں آیا ہے، جبکہ افغانستان میں امن پاکستان کی ضرورت اور اس کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ پاکستان میں اسامہ کی موجودگی اور یہاں ان کی ہلاکت کا امریکی دعویٰ اب تک ثبوت و شواہد کا محتاج ہے۔ امریکا نے انہیں شہید کیا یا نہیں؟ بس ان کی لاش کو سمندر میں بہا دینے کا اعلان کر کے دنیا کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ امریکی نقطہ نظر سے اتنی بڑی کامیابی حاصل ہوتی تو امریکا دنیا بھر میں اس کا ڈھول پیٹتا، ایبٹ آباد میں ایک مکان کے کمرے میں اسامہ کو قتل کرنے کی ویڈیو فلم بھی بجائے خود نہایت مشکوک ہے، جس میں اسامہ کو سامنے سے دکھایا گیا نہ ان کی ہلاکت یا لاش کا کوئی منظر واضح طور پر پیش کیا گیا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا ہر پاکستانی کو علم ہوتا اور امریکا اس سے بے خبر رہتا۔ واحد سپر پاور ہونے کے دعویدار ملک امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ایسی فضول اور بے بنیاد بیان بازی سے پہلے سو مرتبہ سوچنا چاہئے، لیکن وہ بے چارے بھی کیا کریں۔ اپنی غیر معمولی ذہنی کیفیت اور تلون مزاجی سے مجبور ہیں۔ ان سے زیادہ امریکی باشندوں کی بے بسی پر ترس آتا ہے جو ایک ایسے محیر العقول شخص کو اپنا صدر تسلیم کئے ہوئے ہیں۔
Prev Post
Next Post