حضرت احمد بن حسینؒ فرماتے ہیں، میں نے سیدنا ابو عبد اللہ محاملیؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’عید الفطر کے دن نمازِ عید کے بعد میں نے سوچا کہ آج عید کا دن ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ میں حضرت دائود بن علیؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر انہیں عید کی مبارکباد دوں، آج تو خوشی کا دن ہے، ان سے ضرور ملاقات کرنی چاہئے۔ چنانچہ اسی خیال کے پیشِ نظر میں حضرت دائود بن علیؒ کے گھر کی جانب چل دیا۔ وہ سادگی پسند بزرگ تھے اور ایک سادہ سے مکان میں رہتے تھے۔ میں نے وہاں پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر آنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے مجھے اندر بلا لیا۔
جب میں کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپؒ کے سامنے ایک برتن میں پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے اور ایک برتن میں آٹے کی بور (یعنی بھوسی) رکھی ہوئی تھی اور آپؒ اسے کھا رہے تھے۔ یہ دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی، میں نے انہیں عید کی مبارکباد دی اور سوچنے لگا کہ آج عید کا دن ہے، ہر شخص انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام کر رہا ہو گا، لیکن آپ آج کے دن بھی اس حالت میں ہیں کہ چھلکے اور آٹے کی بھوسی کھا کر گزارہ کر رہے ہیں۔
میں نہایت غم کے عالم میں وہاں سے رخصت ہوا اور اپنے ایک صاحب ثروت دوست کے پاس پہنچا، جس کا نام ’’جرجانی‘‘ مشہور تھا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو کہنے لگا: ’’حضور! کس چیز نے آپ کو پریشان کر دیا ہے، خدا آپ کی مدد فرمائے، آپ کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے، میرے لئے کیا حکم ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’اے جرجانی! تمہارے پڑوس میں خدا کا ایک ولی رہتا ہے، آج عید کا دن ہے، لیکن اس کی یہ حالت ہے کہ کوئی چیز خرید کر نہیں کھا سکتا۔ میں نے دیکھا کہ وہ پھلوں کے چھلکے کھا رہے تھے، تم تو نیکیوں کے معاملے میں بہت زیادہ حریص ہو، تم اپنے اس پڑوسی کی خدمت سے غافل کیوں ہو؟‘‘
یہ سن کر اس نے کہا: ’’حضور! آپ جس شخص کی بات کر رہے ہیں، وہ دنیا دار لوگوں سے دور رہنا پسند کرتا ہے۔ میں نے آج صبح ہی اسے ایک ہزار درہم بھجوائے اور اپنا ایک غلام بھی ان کی خدمت کے لئے بھیجا، لیکن انہوں نے میرے درہم اور غلام کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ جائو اور اپنے مالک سے کہہ دینا کہ تم نے مجھے کیا سمجھ کر یہ درہم بھجوائے ہیں؟ کیا میں نے تجھ سے اپنی حالت کے بارے میں کوئی شکایت کی ہے؟ مجھے تمہارے ان درہموں کی کوئی حاجت نہیں، میں ہر حال میں اپنے پروردگار سے خوش ہوں، وہی میرا مقصود اصلی ہے، وہی میرا کفیل ہے اور وہ مجھے کافی ہے۔‘‘
اپنے دوست سے یہ بات سن کر میں بہت متعجب ہوا اور اس سے کہا: ’’تم وہ درہم مجھے دو، میں ان کی بارگاہ میں یہ پیش کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ قبول فرما لیں گے۔‘‘ اس نے فوراً غلام کو حکم دیا: ’’ہزار ہزار درہموں سے بھرے ہوئے دو تھیلے لائو۔‘‘ پھر اس نے مجھ سے کہا: ’’ایک ہزار درہم میرے پڑوسی کے لئے اور ایک ہزار آپ کے لئے تحفہ ہیں۔ آپ یہ حقیر سا نذرانہ قبول فرما لیں۔‘‘ میں وہ دو ہزار درہم لے کر حضرت دائود بن علیؒ کے مکان پر پہنچا اور دروازے پر دستک دی، آپؒ دروازے پر آئے اور اندر ہی سے پوچھا: ’’اے محاملی! تم دوبارہ کس لئے یہاں آئے ہو؟‘‘
میں نے عرض کی: ’’حضور! ایک معاملہ درپیش ہے، اسی کے متعلق کچھ گفتگو کرنی ہے۔‘‘ پس انہوں نے مجھے اندر آنے کی اجازت عطا فرما دی، میں ان کے پاس بیٹھ گیا اورپھر درہم نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔ یہ دیکھ کر آپؒ نے فرمایا: ’’میں نے تجھے اپنے پاس آنے کی اجازت دی اور تم میری حالت سے واقف ہو گئے۔ میں تو یہ سمجھا تھا کہ تم میری اس حالت کے امین ہو۔ میں نے تم پر اعتماد کیا تھا، کیا اس اعتماد کا صلہ تم اس دنیوی دولت کے ذریعے دے رہے ہو؟ جائو! اپنی یہ دنیوی دولت اپنے پاس ہی رکھو، مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں۔‘‘
حضرت محاملیؒ فرماتے ہیں: ’’ان کی یہ شانِ استغناء دیکھ کر میں واپس چلا آیا اور اب میری نظروں میں دنیا حقیر ہو گئی تھی۔ میں اپنے دوست جرجانی کے پاس گیا، اسے سارا ماجرا سنایا اور ساری رقم واپس کر دینا چاہی تو ا س نے یہ کہتے ہوئے وہ درہم واپس کر دیئے کہ ’’خدا کی قسم! میں جو رقم خدا کی راہ میں دے چکا، اسے کبھی واپس نہ لوں گا، لہٰذا یہ مال تم اپنے پاس رکھو اور جہاں چاہو خرچ کرو۔‘‘
پھر میں وہاں سے چلا آیا اور میرے دل میں مال کی بالکل بھی محبت نہ تھی، میں نے سوچ لیا کہ میں یہ ساری رقم ایسے لوگوں میں تقسیم کر دوں گا، جو شدید حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے، بلکہ صبر و شکر سے کام لیتے ہیں اور اپنی حالت حتی الامکان کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے۔‘‘
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post