گائے کے سینگوں پرسویٹزرلینڈ میں آج ریفرنڈم
برن (امت نیوز) سوئٹزرلینڈ میں آج اتوار کو ریفرنڈم ہونے جا رہا ہے جہاں عوام اپنے ووٹ سے یہ فیصلہ کریں گے کہ گائے کو سینگ رکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے یا نہیں۔واضح رہے کہ سیاحت کے علاوہ سوئٹزرلینڈ کی ایک اور شناخت وہاں کی گائیں ہیں جو اپنے دودھ کی بنا پر یورپ بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔ڈیری فارم کے مالکان یا منتظمین عموماً گائیوں کے سینگ کاٹ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سینگ گائیوں کے اپنے لیے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں۔سوئٹزر لینڈ میں ایسی گائیوں کی تعداد بہت کم ہیں جو سینگ کٹوانے سے محفوظ رہتی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سوئٹزر لینڈ کی تین چوتھائی گائیوں کے سینگ نہیں ہوتے، یا تو ان کے سینگ جلا دیئے جاتے ہیں یا ان گائیوں کا تعلق اس ہائی بریڈ نسل سے ہے جو سینگ کے بغیر پیدا ہوتی ہیں۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس کا کہنا ہے کہ یہ ظالمانہ طریقہ ہے۔ اس سے جانور کو بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن سینگ جلانے کے حامی یہ کہتے ہیں کہ گائیوں کے سینگ انہیں بے ہوش کرنے کے بعد جلائے جاتے ہیں جس میں انہیں ذرا بھی تکلیف نہیں ہوتی۔گائے پالنے والوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے سینگ نہیں ہونے چاہییں تاکہ وہ اپنے سر کو آزادی سے حرکت دے سکیں۔لیکن ارمین کیپال اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ ان کے سینگ کیسے جلا سکتے ہیں۔ یہ مویشیوں کی عظمت اور وقار کا معاملہ ہے۔کیپال نے 2010 میں گائے کے سینگوں کا معاملہ اٹھایا تھا۔سوئٹزرلینڈ کا قانون یہ ہے کہ جب کسی مسئلے کے حق میں ایک لاکھ افراد دستخط کر دیں تو حکومت کو ووٹروں کی رائے جاننے کے لیے ریفرنڈم کرانا پڑتا ہے۔ گائے کے سینگوں پر ریفرنڈم 25 نومبر اتوار کو ہو رہا ہے۔ یہ صرف ایک شخص کیپال کی ہی کامیابی نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی کامیابی ہے جہاں جمہور کی آواز کا احترام کیا جاتا ہے۔رائے عامہ کے جائزے یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کیپال کامیابی حاصل کر لیں گے۔اس تصویر کا ایک اور رخ یہ ہے کہ یہ صرف گائے کا سینگوں کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ تین کروڑ فرانک یعنی ایک کروڑ ڈالر کا معاملہ بھی ہے۔ مہم چلانے والوں کا مطالبہ ہے کہ ہر سینگ والی گائے کے لیے حکومت سالانہ 190 فرانک کی امداد دے۔ وہ کہتے ہیں کہ سینگ والی گائیوں کی دیکھ بھال پر اضافی اخراجات آتے ہیں جس کے لیے حکومت کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔مہم کے مخالفین کو خدشہ ہے کہ یہ رقم اس سبسیڈی سے نکلے گی جو حکومت ہر سال زراعت کے شعبے کو دیتی ہے۔