پاکستانیوں کے لئے یورپ میں دو لاکھ نوکریوں کے دروازے کھل گئے

0

بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں ایک کروڑ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ جس کے تحت تقریباً دو لاکھ پاکستانیوں کے لئے بھی نوکریوں کے دروازے کھلنے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ قریباً ساڑھے تین ماہ بعد برطانیہ اور یورپی اتحاد کے درمیان علیحدگی کے معاہدے پر عمل شروع ہو جائے گا۔ اگلے برس 19 مارچ کو برطانیہ کے مقامی وقت ٹھیک 11 بجے دوپہر بروز جمعہ یہ ’’طلاق‘‘ واقع ہو گی۔
پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل بریگزٹ کی دستاویزات میں ذکر کیا گیا ہے کہ علیحدگی کے اس عمل کے بعد یورپ کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے 50 لاکھ ہنرمند اور غیر ہنرمند افراد کا برطانیہ سے انخلا ہوگا۔ جبکہ اسی طرح ان یورپی ممالک میں کام کرنے والے 50 لاکھ افراد کو واپس برطانیہ آنا پڑے گا۔ یوں برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں مجموعی طور پر ایک کروڑ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کے ڈپارٹمنٹ آف ایمپلائمنٹ سے منسلک ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے بتایا کہ اگرچہ ان ایک کروڑ ملازمتوں کا زیادہ حصہ چین اور بھارت کو ملنے کا امکان ہے، تاہم تقریباً دو لاکھ کے قریب نوکریاں پاکستانیوں کو بھی میسر ہوں گی۔ لیکن اس کا انحصار اس پر ہے کہ بریگزٹ کے بعد پیدا ہونے والی نوکریوں کے مواقع سے حکومت پاکستان کتنا فائدہ اٹھاتی ہے؟ اس سلسلے میں چین اور بھارت پہلے ہی برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے انگیج ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے متعلقہ حکام تاحال سو رہے ہیں۔ برطانوی ڈپارٹمنٹ آف ایمپلائمنٹ کے ذریعے کے مطابق اس سلسلے میں سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ جس پاکستانی وزیر نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کے لئے یورپ میں ملازمتوں کا بندوبست کرنا ہے، وہ نیب کے زیر تفتیش ہے اور اس کے بیرون ملک جانے پر پابندی ہے۔ واضح رہے کہ ذوالفقار حسین بخاری المعروف زلفی بخاری کو ستمبر میں وزیر اعظم عمران خان کا خصوصی نمائندہ برائے اوورسیز پاکستانیز اینڈ ہیومن ریسورس مقرر کیا گیا تھا۔ انہیں وزیر مملکت کا اسٹیٹس ملا ہوا ہے۔ تاہم نیب کی درخواست پر پاکستان اور برطانیہ کی دہری شہریت رکھنے والے زلفی بخاری کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے۔ لندن میں موجود ذرائع کے مطابق چونکہ زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ہے، لہٰذا وہ پاکستانیوں کی بیرون ملک نوکریوں کے سلسلے میں اپنے ہم منصب برطانوی اور دیگر یورپی ممالک کے وزرا یا ذمہ داران کے ساتھ ملاقات کے لئے نہیں جا سکتے۔ ذرائع کے مطابق جہاں یورپ میں پیدا ہونے والی نئی ملازمتوں کے حصول میں پاکستان کو متذکرہ ڈس ایڈوانٹیج کا سامنا ہے، وہیں دوسری جانب پورے برطانیہ میں پاکستان کا صرف ایک کمیونٹی ویلفیئر اتاشی موجود ہے۔ جو دو لاکھ پیدا ہونے والی اسامیوں کے حصول میں پاکستانیوں کی مدد کرنے کے لئے کافی نہیں۔ یہ واحد کمیونٹی ویلفیئر اتاشی مانچسٹر میں ہے۔ جبکہ برمنگھم اور لندن میں بھی مزید دو کمیونٹی ویلفیئر اتاشیوں کی ضرورت ہے، تاکہ وہ برطانیہ میں پاکستانیوں کے لئے ماہانہ سو اور ایک برس میں چار ہزار ملازمتوں کا بندوبست کر سکیں۔ کمیونٹی ویلفیئر اتاشی کا کام متعلقہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا اور پاکستانی اوورسیز منسٹری کے ذریعے اپنے ہم وطنوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے۔
ذرائع کے مطابق یورپ میں پاکستانیوں کے لئے نئی نوکریوں کے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ چین، بھارت اور بنگلہ دیش ان ملازمتوں کا بڑا حصہ لے اڑیں۔ ذرائع کے مطابق پچھلی حکومت کی عدم دلچسپی اور نااہلی کے سبب پاکستان قطر میں ایک لاکھ نوکریوں اور ملائیشیا میں دس ہزار سیکورٹی گارڈز کی اسامیوں کے موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ جبکہ یہ مواقع اب بھی موجود ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت بھی اس میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ قطر میں فٹبال کا ورلڈ کپ ہونے جا رہا ہے۔ لہٰذا وہاں روزگار کے بڑے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں قطر نے پاکستان سے ایک لاکھ افراد مانگے تھے۔ اسی طرح ملائیشیا نے دس ہزار سیکورٹی گارڈز کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ سلسلہ پچھلے پانچ سال سے چل رہا ہے، لیکن اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں جن شعبوں میں ہنرمند اور غیر ہنرمند افراد کی شدید کمی پیدا ہو گی ان میں ہائوس کیپنگ اینڈ کلیننگ، ڈرائیورز، کنسٹرکشن اینڈ پراپرٹی، سیکورٹی، ایگریکلچر اینڈ فارمنگ، اسپتال، کیٹرنگ، ہوٹلنگ، اکائونٹینسی، کسٹمر سروس اینڈ کال سینٹر، ایڈمن، چائلڈ کیئر، ہیلتھ سیکٹر، سوشل اینڈ ویلفیئر ورک، ڈیجیٹل میڈیا، اسپورٹس، فٹنس، کمپیوٹنگ اینڈ آئی ٹی، ٹیچنگ اینڈ ایجوکیشن، مارکیٹنگ، ایڈورٹائزنگ، لیگل سیکٹر، ٹرانسپورٹ، لاجسٹک اینڈ ڈلیوری، انجینئرنگ، چیئریٹی، سائنٹیفک اینڈ ریسرچ، ہیومن ریسورس، سیاحت، مینوفیکچرنگ اینڈ انڈسٹریل اور فنانشنل سروسز سمیت دیگر شعبے شامل ہیں۔
برطانیہ میں پریکٹس کرنے والے معروف پاکستانی نژاد برطانوی قانون دان بیرسٹر امجد ملک کا کہنا ہے کہ جس طرح جنرل ایوب کے دور حکومت میں منگلا ڈیم کی تعمیر کے بعد لاکھوں بے آباد پاکستانیوں کو برطانیہ آنے کا موقع ملا تھا، اب تقریباً ساٹھ سال بعد اسی طرح کا ایک اور موقع پیدا ہوگیا ہے۔ بیرسٹر امجد ملک چونکہ اوورسیز پاکستانی فائونڈیشن کے چیئرمین بھی رہے ہیں، لہٰذا بیرون ملک پاکستانیوں کی نوکریوں کے عمل اور طریقہ کار سے پوری طرح واقف ہیں۔ اور اس سلسلے میں وہ حکومت پاکستان کی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا ’’بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں ہنرمند اور غیر ہنرمند افراد کی جو قلت پیدا ہونے جا رہی ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کو قبل از وقت اقدامات کرنے ہوں گے۔ دیگر شعبوں کے علاوہ برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروسز کو بھی تیس ہزار نرسوں کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی طرح یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز برطانیہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ پاکستان کی اوورسیز منسٹری کو چاہئے کہ وہ پاکستانی ڈاکٹروں، دوا سازوں، نرسوں، انجینئرز، ڈرائیوروں، مکینکوں، دھوبیوں، شیف، جونیئر شیف، بڑے اسٹوروں میں سیلز اسٹاف، آئی ٹی سے منسلک نوجوانوں اور دیگر شعبوں کے ہنرمند افراد کو برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں بھجوانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ اس کے لئے پاکستان کو یورپی ممالک کے سفارت خانوں میں تعینات اپنے کمرشل اور سوشل اتاشیوں کے ذریعے مختلف کمپنیوں اور سرکاری اداروں سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔ اس میں چیمبر آف کامرس اور پاکستان کی دیگر تجارتی تنظیمیں بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے ابھی تک کچھ نہیں کیا ہے۔ حکومت پاکستان کی بریگزٹ کی سیاسی صورت حال پر تو نظر ہے، لیکن اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مواقع پر نظر نہیں۔ ہم اب تک ایجنٹوں میں پھنسے ہوئے ہیں، جو سادہ لوح عوام سے لاکھوں روپے بٹور کر غیر قانونی طور پر انہیں ترکی اور ایران کے راستے یورپ بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان میں سے بیشتر کی لاشیں ملتی ہیں۔ جبکہ حکومت بیرون ملک قانونی طور پر پاکستانیوں کو بھیجنے کی گنجائش سے فائدہ اٹھانے کے موڈ میں دکھائی نہیں دے رہی‘‘۔ بیرسٹر امجد ملک کے مطابق چین، برطانیہ اور یورپ کا بہت بڑا برآمدی پارٹنر ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں سروسز اور انڈسٹریز بھارت فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا یہ دونوں ممالک اپنے عوام کے لئے ان لاکھوں نوکریوں کے حصول میں متحرک ہو چکے ہیں۔ ایشین ممالک میں بھارت کی نرسیں سب سے زیادہ برطانیہ میں کام کر رہی ہیں۔ کیونکہ اس نے بہت پہلے ہی اپنی نرسوں کا معیار برطانوی نرسوں کے مطابق بنا لیا تھا۔ بھارتی نرسیں ایف ایس سی کے بعد نرسنگ کا چار سالہ کورس کر رہی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں میٹرک کے بعد نرسنگ کا چار سالہ کورس کرایا جا رہا ہے۔ لہٰذا پاکستانی نرسیں برطانیہ کے معیار کے مطابق نہیں۔ نوکریوں کے حالیہ مواقع کے تحت اگر پاکستانی نرسیں برطانیہ جاتی بھی ہیں تو انہیں دوبارہ کورس کرنا پڑے گا۔ اس کے مقابلے میں بھارتی نرسوں کو کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اب سننے میں آیا ہے کہ پاکستان میں بھی ایف ایس سی کے بعد نرسنگ کا کورس کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایسا ہونا خوش آئند ہو گا۔ اس سوال پر کہ پاکستانی انفرادی طور پر کس طرح یورپ میں پیدا ہونے والے ملازمتوں کے موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ بیرسٹر امجد ملک کا کہنا تھا کہ ’’اپنے طور پر برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں ان نئی ملازمتوں کے حصول کے خواہشمند پاکستانیوں کو چاہئے کہ وہ خود کو فوری طور پر معتبر ریکروٹ کمپنیوں اور اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کی ویب سائٹس پر رجسٹر کرائیں۔ یعنی انہیں سی وی کی شکل میں اپنا پورا ڈیٹا فراہم کریں۔ تاکہ جب یورپ میں بھرتیاں شروع ہوں تو اس ڈیٹا کی بنیاد پر انہیں انٹرویو کے لئے کال کر لیا جائے۔ اسی طرح بیروزگار ہنرمند اور غیر ہنرمند پاکستانی گوگل پر سرچ کریں تو انہیں ایسی بے شمار یورپی کمپنیاں مل جائیں گی جو ان ملازمتوں کے لئے براہ راست اشتہارات دے رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کی ویب سائٹس پر بھی پاکستانی نوجوان نوکریوں کے لئے اپلائی کر سکتے ہیں۔ جبکہ نوجوان جس یورپی ملک میں ملازمت کے خواہشمند ہیں، ان ممالک کی پاکستان میں تعینات کمیونٹی ویلفیئر اتھارٹی سے بھی رابطہ کر سکتے ہیں‘‘۔ بیرسٹر امجد ملک کے بقول لاکھوں غیر ملکیوں کو نوکری دینے کے لئے متعلقہ یورپی ممالک ویزہ پالیسی میں بھی نرمی کریں گے۔ ٭

٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More