معارف و مسائل
اس مسئلے میں حضرت ابن عباسؓ اور حضرت انسؓ وغیرہ کا اختلاف ہے جو اوپر آ چکا ہے، اس لئے بہت سے حضرات نے بے وضو قرآن کو ہاتھ لگانے کی ممانعت کے مسئلے میں آیت مذکورہ سے استدلال چھوڑ کر صرف روایات حدیث کو پیش کیا۔ (روح المعانی)
وہ احادیث یہ ہیں… امام مالکؒ نے مؤطاء میں رسول اقدسؐ کا وہ مکتوب گرامی نقل کیا ہے جو آپؐ نے حضرت عمرو بن حزمؓ کو لکھا تھا، جس میں ایک جملہ یہ بھی ہے لا یمس القران الا طاھر (ابن کثیر) یعنی قرآن کو وہ شخص نہ چھوئے، جو طاہر نہ ہو۔
اور روح المعانی میں روایت مسند عبد الرزاق، ابن ابی داؤد اور ابن المنذر سے بھی نقل کی ہے اور طبرانی و ابن مردویہ نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا لا یمس القران الا طاہر (روح المعانی) یعنی قرآن کو ہاتھ نہ لگائے، بجز اس شخص کے جو پاک ہو۔
مسئلہ:
روایات مذکورہ کی بنا پر جمہور امت اور ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم کو ہاتھ لگانے کے لئے طہارت شرط ہے، اس کے خلاف گناہ ہے، ظاہری نجاست سے ہاتھ کا پاک ہونا، باوضو ہونا، حالت جنابت میں نہ ہونا سب اس میں داخل ہے، حضرت علی مرتضیٰؓ، ابن مسعودؓ، سعد بن ابی وقاصؓ، سعید ابن زیدؒ، عطائؒ اور زہریؒ، نخعیؒ، حکمؒ، حمادؒ، امام مالکؒ، شافعیؒ، ابو حنیفہؒ سب کا یہی مسلک ہے، اوپر جو اختلاف اقوال نقل کیا گیا ہے وہ صرف اس بات میں ہے کہ یہ مسئلہ جو احادیث مذکورہ سے ثابت اور جمہور امت کے نزدیک مسلم ہے، کیا یہ بات قرآن کی آیت مذکورہ سے بھی ثابت ہے یا نہیں، بعض حضرات نے اس آیت کا مفہوم اور احادیث مذکورہ کا مفہوم ایک قرار دیا اور اس آیت اور احادیث مذکورہ کے مجموعہ سے اس مسئلہ کو ثابت کیا، دوسرے حضرات نے آیت کو استدلال میں پیش کرنے سے بوجہ اختلاف صحابہ احتیاط کی، لیکن احادیث مذکورہ کی بناء پر مسلک سب نے یہی اختیار کیا کہ بے وضو و بے طہارت قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں، اس لئے خلاف مسئلے میں نہیں، بلکہ اس کی دلیل میں ہوا ہے۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post