حجر اسود-تاریخ کے آئینے میں

0

تاریخ و حوادث:
3: سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی، جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا، اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا، حق تعالیٰ تعالیٰ کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اس کی یہ گھنائونی کارروائی دیکھ رہا تھا، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اس کی حجر اسود پر دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی۔
4: سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ مکرمہ بھیجا، جس میں سے ایک ’’الحاکم العبیدی‘‘ تھا، جو ایک مضبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا۔ وہ اپنے ساتھ ایک تلوار اور ایک لوہے کی سلاخ لایا تھا۔ اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اس نے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ’’حجر اسود‘‘ پر لگا ڈالیں، جس سے اس کی کرچیاں اڑ گئیں۔ وہ ہذیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ جب تک وہ حجر اسود کو پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا جب تک سکوں سے نہ بیٹھے گا۔ بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر حق تعالیٰ کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو پکڑ کر قتل کر دیا گیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا گیا۔
5: اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی ہوا۔ جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیار کے ساتھ مطاف میں آیا اور اس نے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی۔ اس وقت کا ایک شہزادہ ’’شہزادہ نصیر‘‘ مطاف میں موجود تھا، جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
6: سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اس نے حجر اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا۔ اس نے کعبہ کی سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی۔
7: اس کے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاتر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا۔ حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ حوادث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسہ دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بے چین رہتے ہیں، آٹھ ٹکڑوں میں تبدیل کر دیا ہے۔
606ء میں جب رسول اقدسؐ کی عمر مبارک 35 سال تھی، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی، لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہوگیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اقدسؐ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے فرمایا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں حجر اسود کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔
سب پہلے حضرت ابن زبیرؓ نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی۔ 1268ء میں سلطان عبد الحمید نے حجر اسود کو سونے میں مڑھوایا۔ 1281ء میں سلطان عبد العزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔
696ء میں جب حضرت ابن زبیرؓ خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ الراضی کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اٹھا کر لے گیا اور کافی عرصے بعد اس واپس کیا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More