قسط نمبر12
امام بخاریؒ اور امیر بخارا:
جب امام بخاریؒ ملک شام وعراق وغیرہ سے ہو کر نیشاپور تشریف لانے لگے تو نیشاپور کے مشہور محدث محمد بن یحیی ذہلیؒ نے اپنے متعلقین سے کہا کہ میں امام بخاریؒ کے استقبال کے لیے جا رہا ہوں، جس کا جی چاہے استقبال کرے۔ اس اعلان کے بعد نیشا پور شہر سے دو دو تین تین میل دور تک جا کر لوگوں نے امام بخاریؒ کا استقبال کیا اور جب نیشاپور پہنچ کر امام بخاریؒ نے درس حدیث کا سلسلہ شروع فرمایا تو کئی ہزار طلبہ نے امام بخاریؒ کے درس میں شرکت کی۔
مگر چند ہی دن کے بعد کسی نے خلق قرآن کا ایک اختلافی مسئلہ اٹھا کر امام بخاریؒ پر الزام لگایا او ربہت جلد ان کا حلقہ درس ختم ہو گیا، صرف امام مسلمؒ ان کے ساتھ رہے، آخر امام بخاریؒ مایوس ہو کر اپنے وطن بخارا کے لیے روانہ ہو گئے، جب امام بخاریؒ کے نیشاپور سے روانہ ہونے کی اطلاع اہل بخارا کو ملی، تو بڑی شان وشوکت کے ساتھ لوگوں نے امام بخاریؒ کا استقبال کیا اور آپؒ نے بخارا آکر درس حدیث کا سلسلہ شروع فرمایا، ہزاروں طلبہ ان کے درس میں شرکت کرنے لگے۔
مگر حاسدین کو یہ گوارا نہ ہو سکا، انہوں نے یہ ترکیب نکالی کہ امیر بخارا خالد بن احمد ذہلی کو کسی طرح اس پر آمادہ کیا کہ وہ امام بخاریؒ کو حکم کریں کہ وہ امیر کے صاحب زادوں کو ’’بخاری شریف‘‘ اور ’’تاریخ کبیر‘‘ کا درس دیں۔ امیر بخارا کی سمجھ میں بات آئی، تو امیر نے کہا کہ آپ دربار شاہی میں تشریف لا کر مجھے اور میرے صاحب زادوں کو ’’بخاری‘‘ اور ’’تاریخ کبیر‘‘ کا درس دیں، مگر امام صاحبؒ نے اسی قاصد کی زبانی کہلا بھیجا کہ میں علم دین کو سلاطین کے دروازوں پر لے جا کر ذلیل نہیں کرو ں گا، جسے پڑھنا ہو، میرے پاس آکر پڑھے۔
امیر بخارا نے دوبارہ کہلوایا کہ اگر آپ نہیں آسکتے تو صاحب زادوں کے لیے مخصوص کوئی وقت عنایت فرما دیں کہ ان کے ساتھ کوئی دوسرا شریک نہ ہو۔ اس پر امام بخاریؒ نے جواب دیا کہ احادیث رسولؐ پوری امت کے لیے یکساں ہیں، ان کی سماعت سے میں کسی کو محروم نہیں کرسکتا، اگر میرا یہ جواب ناگوار معلوم ہو، تو آپ میرا درس روکنے کا حکم دے دیں تاکہ میں خدا کے دربار میں عذر پیش کر سکوں۔ اس پر امیر بخارا سخت ناراض ہوا اور حاسدوں نے امیر کے اشارے پر امام بخاریؒ کو بد دین اور بدعتی ہونے کا الزام لگایا، پھر حاکم نے بخارا سے نکل جانے کا حکم دیا، تو امام بخاریؒ نے نہایت کبیدہ خاطر ہو کر ان مخالفین کے لیے بدعا کی: خدایا! جس طرح اس امیر نے مجھے ذلیل کیا ہے، اسی طرح اس کو بھی اپنی ذات اور اپنی اولاد او راپنے اہل وعیال کی بے عزتی وذلت دکھا دے۔
چناں چہ ابھی ایک ماہ بھی نہیں گزر پایا تھا کہ خلیفۃ المسلمین نے اس امیر کی کسی غلطی پر سخت ناراض ہو کر اس کو معزول کردیا او راس کا منہ کالا کرکے گدھے پر سوار کرا کے پورے شہر بخارا میں اس کی تذلیل کروائی اوراس کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ انتہائی ذلت ورسوائی سے چند دن کے بعد مر گیا اور اس امیر کے معاونین مختلف بلاؤں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو گئے۔ (ہدی الساری مقدمہ فتح الباری، ص:687، دارالسلام)
وفات :
محمد بن ابی حاتم وراقؒفرماتے ہیں: میں نے غالب بن جبریلؒ سے سنا کہ امام بخاریؒ خرتنگ میں انہیں کے پاس تشریف فرما تھے۔ امام بخاریؒ چند روز وہاں رہے، پھر بیمار ہوگئے۔ اس وقت ایک ایلچی آیا اور کہنے لگا کہ سمرقند کے لوگوں نے آپؒ کو بلایا ہے۔ امام بخاریؒ نے قبول فرمایا۔ موزے پہنے، عمامہ باندھا۔ بیس قدم گئے ہوں گے کہ انہوں نے کہا مجھ کو چھوڑ دو، مجھے ضعف ہو گیا ہے۔ ہم نے چھوڑ دیا۔ امام بخاریؒ نے کئی دعائیں پڑھیں۔ پھر لیٹ گئے۔ آپؒ کے بدن سے بہت پسینہ نکلا۔ دس شوال 256ھ بعد نماز عشاء آپؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اگلے روز جب آپؒ کے انتقال کی خبر سمرقند اور اطراف میں مشہور ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ پورا شہر ماتم کدہ بن گیا۔ جنازہ اٹھا تو شہر کا ہر شخص جنازہ کے ساتھ تھا۔ نماز ظہر کے بعد اس علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے پیکر کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جب قبر میں رکھا تو آپؒ کی قبر سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹی اور بہت دنوں تک یہ خوشبو باقی رہی۔ (ابن ابی حاتمؒ) (جاری ہے)