امام مجدد الف ثانیؒ نے یہ قول حضرت علی المرتضیٰؓ کی طرف سے منسوب کر کے اپنے مکاتیب میں نقل فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ نے جتنے بھی آسمانی صحیفے نازل فرمائے ہیں، ان کے تمام مضامین اولاً تین آسمانی کتابوں زبور، تورات، انجیل میں جمع کر دیئے۔ پھر ان تینوں کتب کے جملہ مضامین کو قرآن کریم میں جمع فرمایا اور قرآن حکیم کے تمام مضامین سورہ فاتحہ میں یک جا کر دیئے۔ گویا دیپاچہ یعنی کتاب کا مقدمہ قرآن سورۃ الفاتحہ میں وحی الٰہی کے تمام مضامین کا خلاصہ آ گیا اور پھر سورہ فاتحہ کے جملہ مضامین بسم اﷲ الرحمن الرحیم میں آ گئے ہیں۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی محبوب سبحانیؒ کے ہمعصر حضرت شیخ جیلیؒ مفسر قرآن نے بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم، کے نام سے ایک مستقل کتاب تحریر فرمائی ہے، جس میں بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی تفسیر شرح و بسط اور تفصیل کے ساتھ لکھی ہے۔ اسی طرح صاحب تفسیر کبیر امام رازیؒ نے بھی بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی تفسیر لکھی ہے۔ جو ستر صفحات پر مشتمل ہے۔
آپؒ فرماتے ہیں کہ بسم اﷲ الرحمن الرحیم کے تمام مضامین میں حرف ’’با‘‘ میں آ گئے ہیں، بلکہ ’’ب‘‘ کے نقطہ میں ہیں اور علم ریاضی (یعنی علم حساب) میں نقطہ ایک ایسی چیز ہے۔ جس کی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ اس کو فرض کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اعداد یعنی گنتی کی تمام عمارت اسی نقطے پر ہی قائم ہے۔ اگرچہ نقطہ خود نظر نہیں آتا ہے۔ (یعنی اگر دس سے الٹی گنتی شروع کر دیں تو ایک عدد پر ختم ہو جائے گی اور ایک سے پہلے نقطہ ہی ہے جو نظر نہیں آتا) اسی طرح حق تعالیٰ جل شانہ بھی خود نظر نہیں آتا، مگر تمام کائنات کی بنیاد اسی پر قائم ہے اور استعانت کا مطلب ہے کہ ہر چیز حق تعالیٰ کی مدد سے ہی ہونی چاہئے اور ہر کام کے لئے اسی سے مدد طلب کرنی چاہئے۔
قرآن و سنت میں ’’خدا سے مدد مانگو‘‘ کا حکم موجود ہے۔ تمام مشکلات و حوائج میں حق تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرو، اگر حق تعالیٰ کی مدد و توفیق شامل حال نہ ہو تو انسان قدم بھی نہیں اٹھا سکتا، حتیٰ کہ آنکھ بھی نہیں جھپک سکتا۔ وہ اور کیا کام انجام دے سکے گا۔
لہٰذا استعانت و مدد بھی صرف رب تعالیٰ سے ہی مانگنی چاہئے۔ غرضیکہ توحید باری تعالیٰ جو پورے دین کی جڑ اور بنیاد ہے۔ بسم اﷲ شریف کے اسی نقطہ میں سمجھائی گئی ہے۔
حضرت امام جعفر صادقؒ سے منقول ہے کہ ’’ب‘‘ کا معنی ہے بِیْ کَانَ مَا کَانَ وَبِیْ مَا یَکُوُنْ، یعنی جو کچھ ہے میری وجہ سے (یعنی رب تعالیٰ) سے ہے اور جو کچھ ہو گا، میری وجہ سے ہو گا۔
(منقول از معارف العرفان فی دروس القرآن ص 90-82)
سخت ترین دن:
حضرت عائشہؓ نے ایک دن رسول اقدسؐ سے پوچھا ’’زندگی کا مشکل ترین دن کون سا تھا؟‘‘ فرمایا: وہ دن جب میں طائف گیا اور عبدیالیل نے شہر کے بچے جمع کر کے مجھ پر پتھر برسائے۔ میں اس دن کی سختی نہیں بھول سکتا۔ عبدیالیل طائف کا سردار تھا۔ اس نے رسول اقدسؐ پر اتنا ظلم کیا تھا کہ حق تعالیٰ کی رحمت بھی جلال میں آ گئی۔ حضرت جبرائیل امینؑ تشریف لائے اور عرض کیا: اگر اجازت دیں تو ہم اس پورے شہر کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس دیں۔
یہ سیرت کا اس نوعیت کا واحد واقعہ تھا کہ جبرائیل امین نے گستاخی رسول پر کسی بستی کو تباہ کرنے کی پیشکش کی ہو اور عبدیالیل اس ظلم کی وجہ تھا۔ عبدیالیل ایک بار طائف کے لوگوں کا وفد لے کر مدینہ منورہ آیا۔ رسول اقدسؐ نے مسجد نبویؐ میں اس کا خیمہ لگایا اور عبد یالیل جتنے دن مدینہ میں رہا، رسول اکرمؐ ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کے پاس جاتے، اس کا حال احوال پوچھتے، اس کے ساتھ گفتگو کرتے اور اس کی دل جوئی کرتے۔ ابی ابن سلول منافق اعظم تھا۔ یہ فوت ہوا تو اس کی تدفین کیلئے اپنا کرتہ مبارک بھی دیا۔ اس کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور یہ بھی فرمایا: میری ستر دعاؤں سے اگر اس کی مغفرت ہو سکتی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ بار اس کیلئے دعا کرتا۔ مدینہ کی حدود میں آپ کی حیات میں نو مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم اگر کہیں مسجد دیکھو، یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو۔‘‘ (گلدستہ واقعات)
Next Post