نمائندہ امت
کراچی میں تجاوزات کے خلاف جاری گرینڈ آپریشن سے متاثر ہونے والے تاجروں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہوچکی ہے، جبکہ انہدامی کارروائیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بلدیہ کراچی اور سندھ حکومت نے تاجروں کو تاحال متبادل جگہیں دی ہیں اور نہ ہی ان کیلئے کسی قسم کے ریلیف کا اعلان کیا ہے۔ تاجر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ میئر کراچی نے تاجروں کو بھوک و افلاس میں مبتلا کردیا ہے۔ دوسری جانب میئر کراچی نے آپریشن کے دوران مسمار کی جانے والی تجاوزات کا ملبہ اٹھانے کیلئے مشینری کی کمی پر سندھ حکومت سے مدد طلب کی ہے۔ کے ایم سی کے مطابق گزشتہ ماہ شروع ہونے والے آپریشن میں ساڑھے سات ہزار دکانیں مسمار کی گئی ہیں جبکہ ہزاروں عارضی دکانیں اور پتھارے ہٹائے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ میئر کراچی وسیم اختر نے بدھ کو سرجانی ٹاؤن میں ایک قبرستان کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ شہر کے قبرستانوں کی حالت خراب ہے اور وہاں مزید قبروں کی جگہ نہیں ہے۔ لہٰذا 6 کروڑ روپے مختص کر رہے ہیں، تاکہ کراچی کے 6 بڑے قبرستانوں کی حالت بہتر بناکر وہاں بڑی تعداد میں قبروں کی جگہ نکالی جاسکے۔ تاجر رہنمائوں کا کہنا ہے کہ نئے قبرستان کا افتتاح اور فنڈز مختص کرکے قبرستانوں میں توسیع کا کام ایسے وقت ہو رہا ہے، جب کراچی میں تجاوزات کے خلاف جاری آپریشن میں 50 ہزار سے زائد تاجروں سے روزگار چھن لیا گیا ہے۔ اچانک دکانیں مسمار کئے جانے پر تاجروں کو دل کے دورے پڑ رہے ہیں۔ جبکہ چھوٹے دکانداروں اور دکانوں کے ملازمین کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کی 3 ہزار سے زائد دکانیں، پتھارے اور عارضی دکانیں مسمار کرکے تاجروں کو بیروزگار کردیا گیا ہے۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں تاجر رہنما اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کے متاثرہ تاجروں کو متبادل جگہ دینے کے بجائے میئر کراچی قبرستانوں میں توسیع کیلئے کوشاں ہیں۔ انہیں زندہ درگور ہونے والے تاجر نظر نہیں آرہے۔ اس سے پہلے کسی حکومت نے ایسا ظالمانہ آپریشن نہیں کیا۔ اقبال کاکڑ کا کہنا تھا کہ کروڑ پتی تاجر سڑک پر آگئے ہیں۔ جس تیزی سے آپریشن جاری ہے اسی رفتار سے تاجروں کو ریلیف بھی دیتے تو شاید صبر آجاتا۔ انہوں نے کہا کہ کئی علاقوں میں منہدم کی گئی دکانوں ملبہ نہیں اٹھایا گیا۔ جبکہ میئر کراچی نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ ملبہ اٹھانے کیلئے مشینری نہیں ہے، سندھ حکومت سے درخواست کریں گے۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف گرائی گئی دکانوں کا ملبہ اٹھانے کیلئے تو بحریہ ٹائون کی مشینری منگوائی گئی تھی۔ لیکن آپریشن کے بعد اولڈ سٹی ایریا ملبے کا ڈھیر بنا ہوا ہے۔ سینئر تاجر رہنما عتیق میر کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ میئر کراچی نے ایک ماہ کے دوران کراچی میں پہلے معاشی قبرستان تیار کیا اور اس میں تاجروں کو نہ جانے کس جرم میں جھونک دیا گیا۔ اور اب قبرستانوں میں گنجائش بڑھانے کیلئے فنڈز مختص کیا جارہا ہے۔ جبکہ انہیں چاہئے کہ وہ متاثرہ تاجروں کو متبادل جگہیں دیں اور ان کیلئے ریلیف کا اعلان کریں تاکہ مایوس اور دل گرفتہ تاجر خودکشیاں نہ کرنے لگیں۔ عتیق میر نے کہا کہ ایمپریس مارکیٹ سے لی مارکیٹ اور ٹاور تک تیزی سے آپریشن جاری ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ماہ سے جاری آپریشن کے دوران جو تاجر متاثر ہوئے ہیں پہلے انہیں ایڈجسٹ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ساڑھے 7 ہزار دکانیں، ہزاروں عارضی دکانیں اور پتھارے توڑنے کا اعتراف خود کے ایم سی نے کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں ان کو متبادل جگہ اور مالی امداد دی جائے، تاکہ وہ اپنا روزگار شروع کرسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تاجر خود تجاوزات گرا رہے ہیں۔ لیکن میئر کراچی اور ان کا عملہ معیشت کا گورکن بنا ہوا ہے۔ آپریشن میں کے ایم سی کو کرایہ دینے والے 10 ہزار سے زائد تاجروں کی دکانیں مسمار کردی گئیں۔ تقریباً 50 ہزار تاجر بیروزگار ہوچکے ہیں اور بلدیہ کا بے رحمانہ آپریشن اب بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کرنے والے بیرون ملک سے نہیں آئے، ان ہی کے دور میں نالوں پر دکانیں بناکر 99 سالہ لیز پر دی گئیں۔ اب تاجروں کا جما جمایا کاروبار تباہ کیا جارہا ہے، ایسا دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ لی مارکیٹ میں سبزی کے تاجروں کے رہنما محمد صابر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ تاجر اس خوف سے راتیں مارکیٹ میں گزار رہے ہیں کہ ان غیر موجودگی میں مارکیٹ مسمار نہ کردی جائے۔
واضح رہے کہ کراچی میں تجاوزات کیخلاف آپریشن گزشتہ ماہ شروع ہوا تھا، جو اب بھی اولڈ سٹی ایریا میں جاری ہے۔ لی مارکیٹ کے دکاندار خوف زدہ ہیں کہ نہ جانے کب یہاں بھی توڑ پھوڑ شروع ہوجائے۔ کیونکہ صرف 2 گھنٹے قبل نوٹس دینے کے بعد انہدامی کارروائی شروع کردی جاتی ہے۔ اس مختصر عرصے میں تاجر اپنا سامان بھی نہیں نکال پاتے۔
دوسری جانب آپریشن کے آغاز پر سیاسی جماعتیں خاموش رہی تھیں۔ لیکن اب وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی نے جمعہ کو پریس کلب پر مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں شہر بھر کے متاثرہ تاجروں کو شرکت کیلئے کہا جارہا ہے۔ جبکہ تحریک انصاف اپنا منجن بیچ رہی ہے کہ سندھ حکومت اس معاملے پر خاموش کیوں ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے سندھ حکومت میں شامل رہنما بھی کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ 6 دسمبر کو سندھ حکومت عدالت عظمیٰ میں اس آپریشن کے حوالے سے نظرثانی کی درخواست جمع کرائے گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ متاثرین کیلئے جامع پالیسی بنائی گئی ہے، جس کے تحت انہیں گھر اور دکانیں دی جائیں گی۔ جبکہ اے این پی، سنی تحریک، پی ایس پی اور ایم کیو ایم کے پی آئی بی گروپ کی بھی کوشش ہے کہ اس بڑے ایشو پر سیاسی دکان چمکائی جائے۔ خصوصاً فاروق ستار بار بار احتجاج کا اعلان کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭