جب انڈیا میں پہلی بار 1612ء میں انگریز آئے تو یہاں چاروں طرف کاروبار پر پرتگالی قابض تھے۔ پہلے تو انہوں نے انگریزوں کو قدم جمانے ہی نہیں دیئے۔ مغل دربار تک ان کی رسائی تھی اور بادشاہ ان کی بات کو اہمیت دیتا تھا۔ اس لئے نہیں کہ پرتگالی ملٹری قوت رکھتے تھے یا وہ نیول جہازوں کے حامل تھے… بلکہ انہوں نے مغل گورنر کو آگاہ کیا تھا۔
’’اگر انگریزوں کو یہاں تجارت کرنے یا فیکٹری کھولنے کی اجازت دی گئی تو ہم اپنا تمام کاروبار سمیٹ کر، سورت اور دیگر بندرگاہوں کو ویران کر جائیں گے۔‘‘
مغل بادشاہ ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا۔ کیونکہ انہیں پرتگالیوں کے بزنس سے کافی ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی ملتی تھی۔ یہی سبب تھا کہ پہلے انگریز ہاکنس کو مغل بادشاہ جہانگیر نے گوکہ فیکٹری لگانے کی اجازت دے دی تھی۔ لیکن پرتگالیوں نے اس فرمان پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا تھا۔ اس کے دو سال بعد ایک دوسرے انگریز سر تھامس رو نے سرتوڑ کوشش کے بعد دوبارہ یہ اجازت نامہ حاصل کیا… یہ تمام حقائق ٹی ایچ سورلی کی کتاب "Shah Abdul Latif of Bhit” اور مورلینڈ کی کتاب "From Akbar to Aurangzeb” سے لئے گئے ہیں۔
یہاں چند سطریں سندھ میں آنے والے اس انگریز ڈاکٹر جیمس برنس کے متعلق تحریر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے سندھ پر انگریزوں کے حملے کے لئے راہ ہموار کی تھی۔
پرتگالی گوکہ انگریزوں سے ایک صدی قبل انڈیا میں آئے تھے۔ لیکن بعد میں آنے والوں نے یہاں کے تمام نظام پر قبضہ جما لیا۔ پرتگالی صرف گوا تک محدود ہو گئے۔ انہوں نے بمبئی بھی انگریزوں کو جہیز میں دے دیا تھا۔ 1843ء میں برصغیر کی یہ پوزیشن تھی کہ سندھ اور پنجاب کے علاوہ پورا ہندوستان انگریزوں کے حوالے ہو گیا تھا۔ سندھ ایک الگ ملک تھا، جس پر میروں کی حکومت تھی اور پنجاب پر رنجیت سنگھ کی۔ بنگال، گجرات، جنوبی ہندوستان، بہار، مدراس وغیرہ پر قبضہ کرنے کے بعد انگریزوں کی حریص نظریں سندھ پر گڑی تھیں۔ انڈیا پر اس وقت تک ’’کمپنی راج‘‘ قائم تھا۔ سندھ پر کلہوڑوں کی حکومت تھی۔ انگریزوں نے کلہوڑوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کر کے ان سے سندھ اور شاہ بندر میں فیکٹریاں لگانے کی اجازت مانگی۔ کلہوڑا گھرانے کے چند افراد نے اس کی سخت مخالفت کی۔ آخرکار 1758ء میں انگریز فیکٹریاں لگانے میں تو کامیاب ہو گئے، لیکن ان کی حرکتیں اور چکربازیاں دیکھ کر جلد ہی انہیں بند کرا دیا گیا۔ انگریز اس اقدام پر آگ بگولا تو ہوئے، لیکن فی الحال انہوں نے دب کر رہنے میں عافیت سمجھی اور وقت کا انتظار کرنے لگے۔ کیونکہ ان کا سندھ پر قبضہ کرنے کے بعد پنجاب پر قابض ہونے کا پلان تھا۔
1781ء میں کلہوڑوں کا زوال اور تالپوروں کے راج کا آغاز ہوا۔ اس کے ساتھ ہی انگریزوں کی ’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ کے منیجروں نے سندھ میں قدم جمانے کے پلان بنانا شروع کر دیئے۔ وہ غور سے سندھ کے حالات کا جائزہ لیتے رہے۔ 1802ء میں میر فتح محمد تالپور کا انتقال ہوا اور میر غلام علی تالپور نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کا سوچا گیا اور انگریز ڈپلومیسی حرکت میں آگئی۔
1803ء میں کیپٹن ڈیوڈسین میروں کے دربار میں پہنچا اور اس نے اس بات پر زور دیا کہ انگریزوں کے ساتھ دوستی کر کے سندھ کئی معاملات میں خوشحال ہو سکتا ہے۔ بہرحال تالپوروں کو انگریزوں کی بات تسلیم کرنی پڑی۔ 24 جولائی 1804ء میں انگریزوں اور تالپور حاکموں کے درمیان ایک عہدنامے پر دستخط ہوئے۔ اس کے مطابق تالپوروں نے انگریزوں کو اختیار دے دیا کہ وہ ٹھٹھہ میں اپنے ٹریڈنگ ہائوس قائم کر سکتے ہیں۔ یہ بھی طے پایا کہ مقامی حکمران (تالپور) ان ہی (انگریزوں) سے اسلحہ خریدیں گے۔ اس کے عوض انگریز تالپور حاکموں کو تحفظ فراہم کریں گے۔
ہم بچپن میں فلمیں دیکھتے تھے۔ اس میں فلم کا ہیرو، جو خود بھی چھٹا ہوا لوفر ہوتا تھا۔ وہ اپنے کسی دوسرے لوفر دوست کو اشارہ کرتا تھا کہ ہیروئن سے چھیڑ چھاڑ کرے۔ پھر خود درمیان میں کود کر لڑکی کو اس ’’بدمعاش‘‘ سے چھڑاتا تھا۔ لڑکی اسے اپنا ہمدرد سمجھ کر اس کی ہو جاتی تھی۔ انگریزوں کا بھی یہی کام تھا۔ دو راجائوں، نوابوں، حاکموں یا سرداروں کو بھڑکا کر ایک دوسرے کے خلاف کر دیتے تھے۔ پھر ان میں سے جو زیادہ مالی فائدہ پہنچانے کا وعدہ ’’ٹریٹی‘‘ کرتا، انگریز اس کی حمایت میں دوسرے کی پھینٹی لگاتے تھے۔
ہمارے برصغیر کے حاکم ویسے ہی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ معمولی اختلافات کے باعث خوں ریزیاں ہوتی تھیں۔ انگریزوں کے پاس اس وقت کے جدید ہتھیار، بندوقیں، گولہ بارود اور جنگی دماغ تھا۔ ادھر ہمارے کم فہم حاکموں کے پاس کلہاڑیاں اور طلائی کام کی میانوں میں چاندی کی تلواریں تھیں۔ عوامی فلاح کے لئے سوچنا اور دشمن سے مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے ان کی پوری توجہ عورتوں اور شراب پر تھی… کئی لوگ تو موٹاپے (obesity) اور ڈائبٹیز کے مریض تھے۔ لیکن اس وقت کے تاریخ نویس یہ سب کچھ نہیں لکھتے: کیونکہ سائنسدانوں ہی کو 1920ء میں معلوم ہو سکا کہ کثرت سے مٹھاس اور گھی، بادام کھانے سے جسم کا Pancreas بے حال ہو جاتا ہے اور ’’انسولین‘‘ بنانا ترک کر دیتا ہے۔ جو خون میں موجود شکر کو کنٹرول کرتی ہے۔
بہرحال ’’زور آور‘‘ کے سامنے ’’زاری‘‘ ہے۔ انگریز ماڈرن ہتھیاروں اور بڑی فوج کی وجہ سے ’’زور آور‘‘ تھے۔ سب ہی ان سے خوف زدہ رہتے تھے۔ ٹھٹھہ میں بیوپار کے بہانے انگریزوں کی موجودگی ایک طرف اور دوسری جانب 1827ء میں ڈاکٹر جیمس برنس کو ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ دریا کے ذریعے سندھ کا سروے کرے۔
ان ایام میں انگلینڈ کا بادشاہ ولیم چہارم تھا۔ (ملکہ وکٹوریا اس بادشاہ کی موت کے بعد 1837ء میں تخت نشیں ہوئیں) بادشاہ ولیم کی جانب سے جیمس برن کو تحفتاً گھوڑے بھجوائے گئے۔ جیمس ان گھوڑوں کے ذریعے دریائے سندھ کے کنارے کنارے لاہور روانہ ہو گیا۔ وہ سفر کے دوران خفیہ طور پر لیکن بہت غور سے سروے کرتا رہا۔ اس قدر کہ کئی سندھیوں نے اس خوف کا اظہار بھی کیا کہ اب انگریز نے یہاں قدم دھر لئے ہیں، سندھ کی خیر نہیں… چند برس بعد یہ اندیشہ سچ ثابت ہوا۔ ڈاکٹر جیمس برنس اور اس کا بڑا بھائی الیگزنڈر برنس، جو سورت میں فوج کا مترجم تھا۔ فارسی اور اردو کے ماہر تھے۔ ڈاکٹر برنس نے آرام سے دریائے سندھ کی جاسوسی کر لی۔ اس کے بعد 1839ء میں میر علی مراد کسی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ میر صاحب نے ڈاکٹر کو دعوت دے کر اپنے پاس بلوا لیا۔ اس طرح انگریزوں کو سندھ کے حاکموں کی اندرونی باتوں کی معلومات بھی حاصل ہوتی رہی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post