حضرت رابعہ بصریہؒ مخدومہ شب و روز عبادت میں رہتی تھیں۔ آپ کو حج کا شوق ہوا۔ ایک گدھا بہت لاغر ان کے پاس تھا۔ اس پر اسباب لادکر چل پڑیں۔ راہ میں گدھا مر گیا۔ دوسرے ہمراہیوں نے ان سے کہا: ہم آپ کا اسباب لے چلیں گے۔ آپ نے کہا: تم سب جاؤ، میں تم لوگوں کے بھروسے پر نہیں آئی ہوں۔
قافلہ چلا گیا۔ آپ تنہا رہ گئیں۔ آپ نے درگاہ الٰہی میں عرض کی: اے ساری کائنات کے بادشاہ! کیا ایک غریب عورت کے ساتھ یہی معاملہ کیا جاتا ہے کہ تو نے پہلے مجھے اپنے گھر کی طرف بلایا، پھر راہ میں گدھے کو مار ڈالا اور تنہا بیابان میں سراسیمہ کر دیا۔ آپ کی مناجات ختم نہ ہوئی تھی کہ گدھا زندہ ہو گیا۔ آپ نے پھر اس پر اسباب لادا اور مکہ معظمہ کو چلیں۔
حضرت رابعہؒ قریب مکہ معظمہ کے پہنچیں تو چند دن بیابان میں قیام پذیر ہوئیں اور مناجات کی کہ میرا دل رنجیدہ ہے اور یہ خیال مجھے درپیش ہے کہ میں کہاں جاتی ہوں۔ میری بنیاد ایک مشت خاک ہے اور خانہ کعبہ پتھر کا بنا ہوا مستحکم مکان ہے۔ میری عرض ہے کہ تو مل جائے۔
حق تعالیٰ کی جانب سے غیبی آواز آئی: اے رابعہ! کیا تو چاہتی ہے کہ تمام عالم تہہ و بالا ہو اور سب کا خون تیرے نامہ اعمال میں لکھا جائے کہ تو نے نہیں سنا کہ موسیٰؑ نے دیدار کی آرزو کی، ہم نے اپنی تجلی کوہ طور پر ڈالی، جس کا اثر یہ ہوا کہ تمام پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
ایک بار آپ پہاڑ پر گئیں، تمام شکاری جانور آپ کے ارد گرد جمع ہوکر آپ کی طرف دیکھنے لگے۔ اتنے میں حضرت حسن بصریؒ بھی وہاں پہنچے، سب جانوران کو دیکھ کر بھاگ گئے۔ حضرت حسن بصریؒ نے آپ سے دریافت کیا کہ جانور مجھے دیکھ کر کیوں بھاگ گئے اور تمہارے پاس کیوں کھڑے رہے؟ آپ نے پوچھا کہ تم نے آج کیا کھایا ہے؟ کہا میں نے گوشت روٹی کھائی ہے۔ آپ نے کہا کہ جب تم نے ان کے بھائیوں کا گوشت کھایا ہے تو وہ تم سے کیوں نہ بھاگیں۔
آپ سے حضرت حسن بصریؒ نے پوچھا کہ تم نے یہ مرتبہ کیونکر پایا؟ آپ نے فرمایا: میں نے کل موجودات کو خدا کی یاد میں گم کردیا۔ حضرت حسن بصریؒ نے پوچھا: تم نے خدا کو کیونکر جانا؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے بے چوں وچرا خدا کو پہچانا۔ ایک بار لوگوں نے آپ سے پوچھا، آپ کہاں سے آئیں ہیں اور کہا جائیں گی؟ فرمایا: اس جہاں سے آئی ہوں اور اسی جہاں میں جاؤں گی۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ اس جہان میں کیا کرتی ہیں؟ فرمایا افسوس۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو جواب دیا اس لئے افسوس کرتی ہوں کہ مجھے رزق اس جہان سے ملتا ہے اور میں کام اس جہان کے کرتی ہوں۔
لوگوں نے آپؒ سے پوچھا کہ آپ جس خدا کی عبادت کرتی ہیں، اس کو دیکھتی بھی ہیں یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اگر میں اس کو نہ دیکھتی تو اس کی پرستش کیوں کرتی۔ آپ ہمیشہ رویا کرتی تھیں۔ لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس کی جدائی سے ڈرتی ہوں، اس لئے کہ اس کی خوگر ہوگئی ہوں، ایسا نہ ہو کہ موت کے وقت ندا آئے ’’تو ہماری درگاہ کے لائق نہیں‘‘ لوگوں نے پوچھا کہ جب گنہگار توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول ہوتی ہے یا نہیں؟
آپ نے فرمایا کہ جب تک خدا توبہ کرنے کی توفیق نہیں دیتا کوئی گنہگار توبہ نہیں کر سکتا اور جب خدا نے توبہ کرنے کی توفیق دی تو توبہ بھی قبول کرتا ہے۔ پھر فرمایا: اعضاء سے خدا کی راہ نہیں ملتی، جب تک انسان کا دل بیدار نہ ہو اور جب دل بیدار ہو گیا تو دوستی اعضاء کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ یعنی بیدار دل وہ ہے، جو حق میں گم ہو جائے اور مدد اعضاء کی اس کو ضرورت نہ ہو اور یہی درجہ فنا کا ہے۔ پس یہی وہ مقام ہے کہ قیامت کے روز خدا کا ذکر کرنے والے ہنستے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔ خدا پاک ہر مسلمان کو ہر وقت اپنا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post