عبیداللہ بن محمد کہتے ہیں:
’’میرے والد نے مجھے بتایا کہ ہم نے صرات (جگہ) میں اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ عمرو بن مسعدہ سخت گرمی کے موسم میں واسط سے بغداد کی طرف جا رہے تھے، وہ پانی سے بھرے ہوئے ٹپ میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی نے انہیں پکارا: ’’اے ٹپ والے! تمہیں خدا تعالیٰ کی نعمت کا واسطہ تم میری بات سنو۔‘‘
کہتے ہیں: ’’انہوں نے ٹپ سے سر اٹھا کر دیکھا کہ ایک کمزور ننگے سر بوڑھا کھڑا ہے۔‘‘ بوڑھے نے کہا: ’’تم میری حالت دیکھ چکے ہو۔ مجھے کوئی ایسا نہیں ملتا جو مجھے سوار کرا دے، سو تم میرے ذریعے سے اجر و ثواب کما لو اور اپنے ملاحوں کو کہہ دو کہ مجھے اپنے ساتھ سوار کرائیں اور مجھے کسی شہر میں چھوڑ دیں۔‘‘
عمرو بن مسعدہ نے کہا: ’’مجھے اس پر رحم آگیا۔‘‘ تو میں نے کہا: ’’اس کو لے لو۔‘‘ میرے آدمیوں نے اس کو لے لیا۔ پھر اس پر بے ہوشی طاری ہوگئی اور قریب تھا کہ وہ مر جاتا۔
جب اسے افاقہ ہوا تو میں نے اس سے کہا: ’’اے بوڑھے! تمہاراکیا قصہ ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’ یہ ایک بڑا طویل قصہ ہے۔‘‘
میں نے اس کو مطمئن کیا، اس پر ایک قمیص اور رومال ڈال دیا اور اس کے واسطے دراہم اور کھانے کا حکم دیا تو اس نے اس پر میرا شکریہ ادا کیا۔
میں نے کہا: ’’تم مجھ کو اپنا قصہ ضرور سناؤ۔‘‘
چنانچہ وہ اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے کہنے لگا: ’’میں ایک ایسا آدمی ہوں جس پر رب تعالیٰ کی بڑی نعمتیں تھیں، میں خرانچی تھا، میں نے پانچ سو دینار کی ایک باندی خریدی۔ مجھے اس سے زبردست عشق ہو گیا۔ میں اس سے ایک لمحہ بھی دور نہ رہ سکتا تھا۔ جب میں دکان جاتا تو مجھے جنون سا ہو جاتا تو میں فوراً لوٹ آتا اور پورا دن اس کے ساتھ بیٹھا رہتا۔‘‘
ایسا ہوتا رہا یہاں تک کہ مجھے دکان میں نقصان ہوا اور میرا روزگار بند ہوگیا اور میں نے اپنا سرمایہ خرچ کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ میرا پورا سرمایہ ختم ہوگیا اور میرے پاس اس میں سے کم و زیادہ کچھ نہ بچا اور حال یہ تھا کہ میں اس کے باوجود اس باندی سے دور نہیں رہ سکتا تھا۔
پھر باندی حاملہ ہوگئی تو خرچہ نہ ہونے کی وجہ سے میں اپنا گھر توڑنا شروع کر دیا اور اس کی لکڑیاں اور ملبہ بیچتا رہا، یہاں تک کہ اس کا ملبہ بھی ختم ہوگیا اور میرے پاس کچھ بھی نہ بچا، پھر اس باندی کو درد زہ نے آلیا تو اس نے کہا: ’’ارے سنتے ہو! میں ادھر مر رہی ہوں، تم اتنے پیسے کہیں سے لاؤ، جس سے تم کچھ شہد، آٹا اور گوشت خرید لو، ورنہ تو میں مر جاؤں گی۔‘‘
تو مجھے رونا آگیا، میں اداس ہوگیا اور اپنے آپ کو ختم کرنے کا سوچ کر کسی دریا میں ڈبونے چل پڑا، مگر جب مجھے زندگی کی محبت اور آخرت کا عذاب یاد آیا تو میں رک گیا۔
پھر میں حیران و پریشان نہروان کی طرف نکل پڑا اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک چلتا رہا، یہاں تک کہ خراسان پہنچ گیا۔ مجھے وہاں ایک جاننے والا ملا تو میں نے اس کے مال میں تجارت شروع کی اور رب تعالیٰ نے مجھ کو بہت سا مال دیا، سو میں مال دار ہو گیا اور میری حالت بہتر ہوگئی، میں کئی سال اس حال میں رہا کہ مجھ کو گھر کی کوئی خبر نہ تھی اور مجھ کو اس بات میں بھی شک نہ تھا وہ باندی ابھی تک زندہ بھی ہوگی۔
بہرحال اس طرح بہت سال گزر گئے، یہاں تک کہ میرے پاس اتنا مال ہوگیا جس کی قیمت بیس ہزار دینار تھی۔ تو میں نے ایک دن سوچا کہ میرے پاس مال جمع ہو چکا ہے۔ اب بھی اگر میں اپنے وطن واپس چلا جاؤں تو بہتر ہوگا۔ چنانچہ میں نے تمام مال سے خراسان میں سامان خریدا اور فارس اور اہواز کے راستے سے عراق جانے کی غرض سے نکلا۔
جب میں فارس اور اہواز کے درمیان پہنچا تو ہمارے قافلے پر کچھ ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا اور جو کچھ سامان تھا وہ سب لے لیا، چنانچہ میں نے صرف اپنے پہنے ہوئے کپڑے ہی بچا لیے اور میں دوبارہ سے غریب ہوگیا۔
پھر میں اہواز آیا اور وہاں حیران و پریشان رہنے لگا۔ ایک دن میں نے وہاں نے رہنے والوں میں سے ایک جاننے والے کو اپنا حال بیان کیا تو اس نے مجھے کچھ خرچہ دے دیا جس کے ذریعے سے میں واسط تک پہنچ گیا۔
اس کے بعد اس آدمی نے جتنا خرچہ دیا تھا وہ بھی ختم ہوگیا تو میں چلتا ہوا اس جگہ تک آگیا جہاں سے آپ گزر رہے تھے اور میں ہلاک ہونے والا تھا کہ میں نے تم سے مدد مانگی اور مجھ کو بغداد چھوڑے ہوئے اٹھائیس سال ہو چکے ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post