جنید بغدادی کو ولایت کیسے ملی؟

0

حضرت جنید بغدادیؒ فنون سپہ گری میں یکتائے زمانہ تھے۔ خصوصاً پہلوانی میں بڑے نامی گرامی تھے اور توبہ سے پہلے بادشاہ وقت کے دربار سے منسلک یعنی شاہی پہلوان تھے۔ ایک بار ایک شخص آیا اور بادشاہ وقت سے کہا کہ میں آپ کے پہلوان (حضرت جنیدؒ) سے کشتی لڑوں گا۔ بادشاہ نے کہا کہ ہمارا پہلوان بہت ہی مضبوط اور طاقتور ہے۔ تم دبلے پتلے کمزور آدمی بھلا اس زبردست پہلوان سے کیا لڑو گے؟ مگر اس شخص نے نہ مانا اور بہت اصرار کیا۔
آخر وقت طے ہوا اور دنگل سج گیا۔ جب حضرت جنید بغدادیؒ خم ٹھونک کر (کشتی کے وقت بازو یا پھٹوں پر اس طرح ہاتھ مارنا کہ آواز نکلے) مقابل ہوئے اور دونوں کی کشتی ہونے لگی تو اس شخص نے چپکے سے ان کے کان میں کہا کہ میں سید آل رسولؐ ہوں، محتاج ہوں، اب تم کو اختیار ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے جب سید آل رسولؐ کا نام سنا تو لڑتے لڑتے گر پڑے۔ جب تو بڑا شور و غل ہوا۔ بادشاہ نے نہ مانا، دوبارہ کشتی کرائی، آپؒ نے پھر جان بوجھ خود کو گرا دیا۔ تیسری بار کشتی ہوئی تو پھر چاروں شانے چت ہوئے، یعنی سید کے مقابلے میں پیٹھ کے بل گر گئے۔ آخر بادشاہ نے اس سید صاحب کو انعام دیا اور حضرت جنیدؒ کو بلایا اور پوچھا کہ سچ کہو، یہ کیا بات تھی۔
حضرت جنید نے صاف صاف اصلی حال بیان کر دیا۔ بادشاہ بہت متعجب ہوا کہ مجمع میں اپنی ذلت اور ایک سید کی عزت گوارا کی۔ در حقیقت یہ بہت بڑی پہلوانی اور بہادری تھی۔ خدا کی شان پھر اسی رات میں رسول اقدسؐ کی ذات اقدس کو خواب میں دیکھا کہ آپؐ فرماتے ہیں: شاباش اے جنیدؒ تو نے ہماری اولاد کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔ ہم بھی تیرے ساتھ ایسا ہی سلوک و برتاؤ کریں گے۔
دوسرے روز حضرت جنیدؒ نے شاہی ملازمت ترک کی اور فقراء کی جستجو میں پھرنے لگے۔ آخرکار اپنے ماموں حضرت سری سقطیؒ سے دست بیعت ہو کر جملہ روحانی منازل طے فرمائیں اور عظیم الشان مقام حاصل فرمایا۔ (بحوالہ محزن اخلاق ص 441)
حضرت شیخ جیلانی ؒ اور اسم اعظم
حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے نقل کیا گیا ہے کہ اسم اعظم لفظ اللہ ہے۔ بشرطیکہ تو اس پاک نام کو جب لے تو تیرے دل میں اس کے سوا کچھ نہ ہو، فرماتے ہیں کہ عوام کیلئے اس پاک نام کو اس طرح لینا چاہیے کہ جب یہ زبان پر جاری ہو تو عظمت و خوف کے ساتھ ہو اور خواص و بڑے بزرگوں کیلئے اس طرح ہو کہ اس پاک نام والے کی ذات و صفات کا بھی استحضار ہو اور اخص الخواص کیلئے یہ ضروری ہے کہ اس پاک ذات کے سوا دل میں کوئی چیز بھی نہ ہو، یاد رہے کہ پہلے درجے کے لوگ عوام ہیں، دوسرے درجے کے خواص اور تیسرے درجے کے
اخص الخواص بزرگ جیسا کہ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ، حضرت جنید بغدادیؒ وغیرہ۔ حضرت جیلانیؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی یہ مبارک نام اتنی کثرت سے ذکر کیا گیا ہے کہ حد نہیں، جس کی مقدار 2584 دو ہزار پانچ سو چوراسی بتاتے ہیں۔
اسم اعظم کیا ہے؟
یہ اسم مبارک یعنی لفظ ’’اللہ‘‘ سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے اور کسی پر نہیں بولا جاتا اور اس کا لفظ اشتقاق (یعنی جس سے لفظ نکلتا ہے) یا تو الوہیت کے مادہ سے ہے، جس کا معنی ہے عبادت۔ مطلب یہ ہے کہ اس ذات کی عبادت جو مستحق عبادت ہے یا اس لفظ کا مادہ یعنی اصل ولہ ہے۔ یعنی حیرانی۔ کیونکہ تمام عقلیں اس ذات باری تعالیٰ کی حقیقت و عظمت معلوم کرنے میں عاجز و بے بس ہیں۔ جیسا کہ اکبر نے کہا ہے۔
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
بس جان گیا میں تیری پہچان یہی ہے
یا اس لفظ کا مادہ اشتقاق الہت سے ہے۔ جس کا مطلب ہے خوف زدہ ہو کر رجوع کرنا، کیونکہ تمام مخلوقات اپنی حوائج میں اسی کی طرف رجوع کرتی ہیں اور مخلوق اسی ذات اقدس کے ذکر پاک سے ہی سکون حاصل کرتی ہے، قلوب اس کے ذکر سے اطمینان و چین پکڑتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ: خبردار خدا کی یاد ہی سے چین و سکون پاتے ہیں دل۔ (پ 13 س الرعد آیت 13) (بحوالہ نماز مسنون کلاں ص 424)
اسم اعظم کی خاصیت:
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اسماء الحسنیٰ میں بیان فرمایا ہے کہ اسم مبارک کی خاصیت یہ ہے کہ جو شخص اس کو ہر نماز کے بعد صدق دل سے سو مرتبہ پڑھے، خداتعالیٰ اس کے دل کو نورانی کر دیتا ہے۔ (شرح انواع جلد 1 ص5-4)
جو شخص روزانہ ایک ہزار مرتبہ یا اللہ کا وظیفہ پڑھے گا۔ ان شاء اللہ اس کے دل سے تمام شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے اور عزم و یقین کی قوت نصیب ہوگی۔ جو لاعلاج مریض بکثرت یا اللہ کا ورد رکھے گا، اس کے بعد شفاء کی دعا مانگے، اس کو کامل شفاء نصیب ہوگی۔ (حصن حصین و معارف الحدیث جلد 5)
علامہ اقبالؒ کہتے ہیں:
نگاہ الجھی ہوئی رنگ و بو میں
خرد کھو گئی چار سو میں
نہ چھوڑ اے دل فعاں صبح گاہی
اماں شاید ملے اللہ ہُو میں
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More