تائید کا حیرت انگیز سلسلہ:
یہ امام مسلمؒ کا بہت بڑا کارنامہ ہے کہ وہ ایک ہی حدیث کو اپنے ایک استاد کے علاوہ دوسرے اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں، پھر ان کے اوپر کی سند میں ایک ہی استاد یا متعدد اساتذہ سے بیان کرنے والے ایک سے زیادہ راویوں کی سندیں بیان کرتے ہیں اور بالکل اوپر ایک ہی حدیث کو اگر ایک سے زیادہ صحابہؓ نے روایت کیا ہے تو مختلف سندوں سے ان روایات کو بھی لے آتے ہیں۔
آج اگر کوئی مطالعہ کرنے والا ایک ہی حدیث لے لے، امام مسلم کی ذکر کردہ تمام سندوں کو سامنے رکھے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امام مسلمؒ نے ایک حدیث کو اپنے ایک استاد اور اوپر تک اس کے ایک استاد سے روایت کرنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ وہ ایک ہی استاد سے روایت کرنے والے متعدد لوگوں کے پاس کتابت حدیث کے لیے حاضر ہوئے۔ ایک استاد مختلف اوقات میں روایت کرنے والے ان کے مختلف شاگردوں (تابعین) سے الگ الگ وہی حدیث سنی اور اس کی توثیق کی۔ اس طرح انہوں نے واضح کیا کہ جن اساتذہ نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کے سامنے وہ حدیث بیان کی اور ہمیشہ ایک ہی جیسے الفاظ سے بیان کرتے رہے، وہ حقیقت میں حفظ و اتقان کے اعتبار سے انتہائی قابل اعتماد ہیں اور ان کی بیان کردہ روایت صحیح ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنے اساتذہ سے اوپر کی اسناد کی بھی اسی طرح مختلف بیان کرنے والوں کی روایات کے ذریعے سے توثیق کی، حتیٰ کہ اکثر اوقات رسول اقدسؐ سے بیان کرنے والے مختلف صحابہؓ کی روایات ان کے اپنے اپنے شاگردوں سے اکھٹی کر کے ان کو بطور شواہد پیش کیا۔ ان میں سے ہر ایک کے لیے متابعات پیش کیں۔ ان کی ایک دوسرے سے توثیق کی اور جو احادیث ہر اعتبار سے ضبط و اتقان میں مکمل تھیں، انہی کا انتخاب کیا، یہ اہتمام بڑے سے بڑے معاملے میں دی گئی شہادتوں کے لیے کسی بڑی سے بڑی عدالت یا توثیقی ادارے کے بس میں نہیں۔
اگر حدیث کے الفاظ یا سند میں کوئی انتہائی معمولی فرق بھی ہے، جیسے ’’حدثنا‘‘ اور ’’اخبرنا‘‘ کا فرق، تو اس کو بھی محفوظ کیا ہے۔ متن میں انتہائی معمولی کمی بیشی کو بھی ذکر کیا ہے۔ اس طرح صحیح مسلم احادیث رسولؐ کا ایک ایسا مجموعہ بن گیا ہے، جو اسناد و متون کے باہمی موازنے اور توثیق کا بے مثال عملی نمونہ ہے۔
روایات کی تعداد:
اس احتیاط و اہتمام کے ساتھ امام مسلمؒ نے جو صحیح مرتب کی، تکرار کے بغیر اس کی احادیث کی تعداد تین ہزار تینتیس ہے اور مکرر احادیث کو شمار کیا جائے تو کل احادیث سات ہزار پانچ سو تریسٹھ ہیں۔ امام مسلمؒ نے یہ انتخاب تین لاکھ احادیث میں سے کیا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تین لاکھ احادیث سے مراد تین لاکھ متن یا مرویات نہیں۔ احادیث کی عدد شماری کا اصول اس مثال سے واضح ہوتا ہے: اگر ایک صحابیؓ سے ایک تابعیؒ نے حدیث بیان کی تو ایک حدیث ہے، اگر دو نے کی تو دو حدیثیں ہیں۔ اسی طرح تابعی سے جتنے شاگردوں نے سن کر حدیث بیان کی، اسی حساب سے نمبر بڑھتا گیا ہے۔ تین لاکھ احادیث سے مراد تین لاکھ الگ الگ سندوں سے بیان کردہ روایات ہیں۔ بعض لوگ اس اصول کو نہیں سمجھتے، اس لیے بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
امام مسلمؒ اپنے اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ خاص طور پر اپنے استاد محمد بن اسماعیل یعنی امام بخاریؒ کی بہت عزت کرتے۔ ان کی عادتیں اپناتے اور وہی کچھ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے، جو ان کے استاد امام بخاریؒ کیا کرتے تھے، وہ چھوٹے بڑے ہر شخص کا احترام کرتے۔ امام بخاریؒ کے متعلق تو وہ کوئی معمولی سی بات بھی سننا گوارہ نہ کرتے۔ جیسے کہ درجہ ذیل واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post