علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی مشہور تفسیر ’’در منثور‘‘ میں ابلیس کے عابد و زاہد ہونے سے راندئہ درگاہ ہونے تک پوری داستان دلچسپ انداز میں ذکر کی ہے۔
ابلیس کا نسب:
فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق ابلیس جنات میں سے ہے۔ اس کے والد کا نام چلیپا تھا اور کنیت ابو الغویٰ تھی۔ اس کے باپ چلیپا کا چہرہ ببر شیر جیسا تھا۔ وہ نہایت قد آور اور بہادر تھا اور اس کا لقب شاشین تھا۔ اس کی قوم اسے شاشین کے نام سے مخاطب کرتی تھی (جس کے معنی دل ہلا دینے کے ہیں)۔
شاشین کی تمام قوم پر دھاک بیٹھی ہوئی تھی اور قوم کا بچہ بچہ شاشین کا احترام کرتا تھا، کیونکہ اس نے جنات کی بے تحاشہ قومیں مختلف فتوحات سے اپنے زیر کی تھیں۔
ابلیس لعین کی والدہ کا نام تبلیث تھا اور اس کی والدہ کا چہرہ بھیڑیئے کی مادہ کی طرح تھا اور اس کا لقب زبی تھا۔ وہ بھی اپنے شوہر کی طرح نہایت دلیر اور طاقت ور تھی۔ اس نے بھی اپنے خاوند کے ہمراہ بے تحاشہ جنگیں جیتی تھیں۔ وہ اس حد تک بہادر تھی کہ ساری قوم جنات کے بچے بچے کی زبان پر تھا کہ تبلیث کے ہوتے ہوئے دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی ہے۔
دنیا کی عجیب ترین جنگ:
جنات قوم کی سرکشی جب حد سے بڑھ گئی، جب جھگڑے فساد سے زمین لرز اٹھی تو آسمانوں سے فرشتوں کو حکم آگیا کہ جائو، ان سرکش جنات کو مار پھینکو۔
بقول ابلیس کے کہ میری ماں تبلیث نے فرشتوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے بہادری کے وہ جوہر دکھائے کے دیکھنے والے عش عش کر اٹھے، لیکن مشکل یہ تھی کہ جن اور فرشتوں کا کوئی جوڑ نہیں تھا اور خود میرا یعنی ابلیس لعین کا بھی یہ خیال تھا کہ میری ماں کی بعید از قیاس بہادری کے مقابلے میں فرشتوں نے آکر سخت غلطی کی ہے اور انہیں بڑی عبرت ناک شکست ہوگی۔ لیکن خدا جانے کیا ہوا کہ ہم کمزور پڑ گئے اور فرشتے ہم پر غالب آتے گئے۔
اس عجیب و غریب جنگ کا سماں کچھ ایسا ناقابل فہم تھا کہ ساری قوم حیرت میں تھی۔ فرشتوں کا وار ہم پر خوب پڑرہا تھا، لیکن ہمارا وار کچھ ایسا اوچھا اور بزدلانہ پڑ رہا تھا کہ ہمیں خود حیرت ہوتی تھی۔ قوم جنات کا جو بچہ بچہ میری ماں اور باپ کی بہادری کے گن گاتا تھا، آج انہی کو فرشتے دردناک طریقوں سے مار رہے تھے۔ اسی دوران میری ماں اور میرے باپ جنگ میں مارے گئے۔ میں اس وقت شادی شدہ تھا۔ میری ملکہ اور بیٹا مرّہ بھی مارے گئے۔
چونکہ ابلیس کے والد کا چہرہ شیر کی طرح اور والدہ کا چہرہ بھیڑیئے کی طرح تھا، لہٰذا علم قیافہ کی رو سے ابلیس میں دونوں خصوصیات ہیں۔ یعنی وہ نہایت خود دار و سرکش اور مکار ہے۔ اور ساتھ ہی نہایت، خود غرض، فریبی اور دھوکہ باز بھی ہے۔
فرشتوں اور قوم ابلیس جنات کے درمیان جو جنگ ہوئی تھی، اس میں جو جنات قیدی بنائے گئے، ان قیدیوں میں شہزادہ ابلیس بھی موجود تھا۔ فرشتے جب بار گاہ باری تعالیٰ میں حاضر ہوئے تو ان کو حکم ہوا کہ عزازیل کی بہترین تربیت کرو۔ چنانچہ فرشتوں نے ابلیس کی تربیت بہترین انداز سے کی۔ حق جل جلالہ کے رتبہ اور جاہ وجلال سے آشنا کیا گیا۔ عبادت اور ریاضت کے طریقے و آداب سمجھائے گئے۔ (یہاں تک کہ پہلے آسمان والوں نے اس کو عابد کہا۔ دوسرے آسمان والوں نے زاہد۔ تیسرے آسمان والوں نے عارف۔ چوتھے آسمان والوں نے ولی۔ پانچویں آسمان والوں نے تقی۔ چھٹے آسمان والوں نے خاشع اور ساتویں آسمان والوں نے عزازیل کے لقب سے ملقب کیا)
کچھ ہی عرصے میں یہ اپنی فطری تیزی و طراری کے سبب سب کچھ سیکھ گیا اور اس کے علم کا فرشتوں میں بھی چرچا ہونے لگا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post