امام ترمذیؒ جس دور میں پیدا ہوئے، اس زمانہ میں علم حدیث درجہ شہرت کو پہنچ چکا تھا، بالخصوص خراسان اور ماوراء النہر کے علاقے اس فن میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے اور وہاں امام بخاریؒ جیسے جلیل القدر محدث کی مسند ِعلم بچھ چکی تھی۔ امام ترمذیؒ کو شروع میں ہی تحصیل علم حدیث کا شوق دامن گیر ہوگیا تھا، چنانچہ آپ نے علوم و فنون کے مرکز ترمذ میں ابتدائی تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے بعد طلب ِحدیث کے لئے مختلف شہروں، علاقوں اور ملکوں کا سفر کیا اور بصرہ، کوفہ، واسط، بخارا، رَے، خراسان اور حجاز میں برسوں قیام پذیر رہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی تہذیب التہذیب میں فرماتے ہیں: ’’امام ترمذیؒ نے بہت سے شہروں کا سفر کیا اور خراسان، عراق اور حجاز کے بہت سے علما سے حدیث کا سماع کیا۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذیؒ مصر اور شام نہیں گئے، کیونکہ ان شیوخ سے آپ بالواسطہ روایت کرتے ہیں اور غالباً بغداد بھی نہیں گئے، کیونکہ وہاں جاتے تو امام احمد بن حنبلؒ سے ضرور ملاقات وسماع حدیث کرتے لیکن ان سے ان کا سماع ثابت نہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذیؒ نے 235ھ میں تحصیل علم کے لئے سفر کا آغاز کیا۔ امام ترمذیؒ کے شیوخ و اساتذہ کی مفصل فہرست امام ذہبیؒ نے سیر اعلام النبلاء میں اور امام مزیؒ نے تہذیب الکمال میں ذکر کی ہے اور ان شیوخ میں کچھ وہ بھی ہیں جن سے ائمہ صحاحِ ستہ نے روایت کی ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے شیوخ ہیں، جن سے امام ترمذیؒ نے شرفِ تلمذ حاصل کیا ہے اور اپنی جامع میں ان سے احادیث بھی روایت کی ہیں۔ جن شیوخ سے آپ نے جامع میں حدیثیں بیان کی ہیں، ان کی کل تعداد تقریباً 206 ہے۔
امام ترمذیؒ کو علوم حدیث میں بہت رسوخ حاصل تھا۔ اس کا سبب کبار ائمہ اور ماہر اہل علم سے کسب ِفیض تھا۔ آپ نے مذکورہ بالا شیوخ سے استفادہ کرنے کے علاوہ علل حدیث، رجال اور فنونِ حدیث میں امام دارمیؒ اور ابو زرعہ رازیؒ سے بھی استفادہ کیا ہے اور خاص کر حدیث کے علوم وفنون اور فقہ الحدیث میں آپ کے اصل مربی امام بخاریؒ ہیں اور ان کی تربیت کا عکس امام ترمذیؒ کی جامع میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
امام ترمذیؒ نے اپنی کتاب العلل میں خود بھی اعتراف کیا ہے کہ ’’میں نے اپنی جامع میں علل وتاریخ کا زیادہ حصہ محمد بن اسمٰعیل (امام بخاریؒ) سے حاصل کیا ہے اور میں نے عراق اور خراسان میں امام بخاریؒ سے زیادہ علل، تاریخ اور اسانید کا علم رکھنے والا کوئی اور نہیں پایا۔‘‘
امام ترمذیؒ کا اعزاز: اگرچہ امام ترمذیؒ امام بخاریؒ کے قابل فخر اور مایہ ناز شاگردوں میں سے ہیں، تاہم انہیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ خود استاد نے ان سے حدیث کا سماع کیا اور ان کے علم و ذکاوت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں اپنے شیوخ اور اساتذہ میں شامل کر لیا۔ خود امام بخاریؒ کو بھی اپنے لائق شاگرد پر ناز تھا، چنانچہ آپؒ نے امام ترمذی ؒ کے سامنے اس امر کااعتراف ان الفاظ میں کیا تھا : ’’جو علمی استفادہ میں نے آپ سے کیا ہے، وہ آپ مجھ سے نہیں کر پائے۔‘‘
امام ترمذیؒ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے فقیہ بھی تھے اور مذاہب ِعلما سے بھی خوب واقف تھے، آپ نے فقہ الحدیث امام بخاری جیسے حاذق محدث سے حاصل کی اور فقہ اہل الرائے اس وقت کے مشہور فقیہ الرازی سے اور فقہ مالکی اسحق بن موسیٰ انصاری اور ابومصعب زہری سے اخذ کی، جب کہ امام شافعیؒ کا مذہب ِقدیم حسن بن محمد زعفرانی اور قولِ جدید ربیع بن سلیمان سے حاصل کیا، اسی طرح امام احمد بن حنبلؒ، اسحق بن راہویہؒ اور دیگر بہت سے علما کے اقوال ومذاہب کو خوب سلیقہ سے اپنی جامع میں سمو دیا۔ آپ کی جامع آپ کے تفقہ فی الحدیث اور مذاہب پر اطلاع کی بہت بڑی دلیل ہے۔ ہر باب میں علما کے اقوال پیش کر کے ان میں سے ایک کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے قاری کا یہ تاثر بنتا ہے کہ آپ فقہ و حدیث کے بہت بڑے امام تھے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post