حضرت شیخ ابو بکر کتانیؒ کا تعلق مشائخ حجاز سے ہے۔ آپؒ کی بیشتر زندگی مکہ معظمہ میں گزری، جس کی وجہ سے آپ کو ’’شمع حرم‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ آپؒ اپنے عہد کے بہت عظیم عابد و زاہد تھے۔ آپؒ کا عالم یہ تھا کہ تیس سال تک کعبہ کے پرنالے کے نیچے بیٹھے رہے اور شب و روز صرف ایک مرتبہ وضو کرتے تھے۔
پہلی مرتبہ والدہ کی اجازت سے حج کا قصد کیا، لیکن دوران سفر آپؒ کو غسل کی حاجت پیش آگئی، چنانچہ بیداری کے بعد یہ خیال آیا کہ میں والدہ سے کسی عہد و پیمان کے بغیر ہی گھر سے نکل کھڑا ہوا ہوں اوراس خیال کے ساتھ ہی گھر واپس آئے تو والدہ کو بہت ہی غمزدہ شکل میں دروازے پر کھڑا پایا۔ آپؒ نے والدہ سے سوال کیا کہ کیا آپ نے مجھے سفر کی اجازت نہیں دی تھی! انہوں نے کہا کہ اجازت تو یقینا دیدی تھی، لیکن تمہارے بغیر گھر میں کسی طرح دل نہیں لگتا تھا اور یہ عہد کر لیا تھا کہ تمہاری واپسی تک دروازے ہی پر تمہارا انتظار کروں گی۔ یہ سن کر آپؒ نے عزم سفر ترک کردیا اور والدہ کی حیات تک ان کی خدمت کرتے رہے، لیکن والدہ کے انتقال کے بعد پھر سفر حج کیا۔
ایک مرتبہ ابو الحسن مزینؒ نے توکل کرکے (توشہ وغیرہ لئے بغیر) سفر شروع کر دیا تو دوران سفر انہیں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ میں ایسا عظیم بزرگ ہوگیا ہوں، جو زاد راہ کے بغیر سفر کر سکتا ہے۔ اس تصور کے ساتھ ہی کسی نے کرخت لہجے میں کہا کہ نفس کے ساتھ دروغ گوئی کیوں کرتا ہے اور جب انہوں نے منہ پھیر کر دیکھا تو حضرت ابوبکر کتانیؒ کھڑے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی غلطی کے احساس کے ساتھ ہی فوراً توبہ کرلی۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ میرے ہمراہ ایک ایسا شخص رہتا تھا جس کا وجود میرے لئے بار خاطر تھا، لیکن محض مخالفت نفس کی وجہ سے اس کے ساتھ نہایت حسن سلوک سے پیش آتا رہا اور ایک دن جب میں اپنی جائز کمائی کے دو سو درہم لے کر اس کے پاس پہنچا تو وہ مصروف عبادت تھا، چنانچہ میں نے وہ درہم اس کے مصلے کے نیچے رکھتے ہوئے کہا کہ تم اپنے خرچے میں لے آنا، مگر اس نے غضب ناک ہو کر کہا کہ جو لمحات میں نے ستر ہزار درہم کے معاوضہ میں خریدے ہیں۔ انہیں تو دو سو درہم کے معاوضہ میں خریدنا چاہتا ہے، جا مجھے تیرے درہم کی ضرورت نہیں، چنانچہ ندامت کے ساتھ میں نے اپنے درہم واپس لے لئے اور اس وقت مجھے جتنا اپنی ذلت اور اس کی عظمت کا احساس ہوا، اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا۔
دوران نماز ایک چور آپ کے کاندھے پر سے چادر کھینچ کر بھاگا تو اس کے دونوں ہاتھ شل ہوگئے، چنانچہ اس نے واپس آکر چادر پھر آپ کے کاندھے پر ڈال دی اور فراغت نماز کے بعد آپ سے معافی کا طالب ہوا، لیکن آپ نے معافی کی وجہ پوچھی تو اس نے پورا واقعہ بیان کردیا۔ آپ نے فرمایا کہ عظمت الٰہی کی قسم نہ مجھے چادر لے جانے کی خبر ہوئی اور نہ واپس لانے کی، پھر آپ نے اس کے حق میں دعا فرمائی تو اس کے ہاتھ ٹھیک ہو گئے۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے خواب میں ایک حسین و خوبرو شخص سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرا نام تقویٰ ہے اور میرا مسکن غمزدہ قلوب ہیں، پھر میں نے خواب میں ایک بدشکل عورت سے سوال کیا کہ تو کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں مصیبت ہوں اور اہل نشاط کے قلوب میں رہتی ہوں، چنانچہ بیداری کے بعد میں نے یہ عہد کرلیا کہ مسرور زندگی کے بجائے ہمیشہ غمگین زندگی بسر کروں گا۔
کسی درویش نے آپ سے رو رو کر عرض کیا کہ جب مجھ پر بیس فاقے گزر چکے تو لوگوں کے سامنے میرے نفس نے یہ راز افشا کردیا، پھر ایک دن راستہ میں مجھے ایک درہم پڑا ہوا ملا، جس پر تحریر تھا کہ کیا رب تعالیٰ تیری فاقہ کشی سے ناواقف تھا، جو تو نے دوسروں سے شکایت کی۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ جس طرح محشر میں خدا کے سوا کوئی معاون و مددگار نہیں ہوگا، اسی طرح دنیا میں بھی اس کے سوا کسی کو معاون تصور نہ کرو۔ پھر فرمایا کہ مخلوق کی محبت باعث عذاب، صحبت باعث مصیبت اور ربط و ضبط وجہ ذلت ہے۔ پھر فرمایا کہ زہد و سخاوت اور نصیحت سے زیادہ کوئی شے سود مند نہیں، فرمایا کہ زاہد وہ ہے جو نہ ملنے پر خوش رہے۔ زندگی بھر ذکر الٰہی سے غافل نہ ہو۔ مصائب پر صبر سے کام لے اور خدا کی رضا پر راضی رہے۔ فرمایا کہ تصوف سرتا پا اخلاق ہے اور جس میں اخلاق کی زیادتی ہوگی، اس میں تصوف بھی زیادہ ہو گا۔ فرمایا کہ اولیائے کرام ظاہر میں اسیر اور باطن میں آزاد ہوتے ہیں۔ صوفی وہ ہے جو عبادت کو مشقت نہ سمجھے۔ استغفار ایک ایسا چھ حرفی لفظ ہے، جو چھ چیزوں کیلئے جامع و اکمل ہے۔ معصیت کے بعد ندامت کے ساتھ توبہ کرنا۔ بعد از توبہ گناہ کا کبھی قصد نہ کرنا۔ قبل از موت خدا کے حقوق کی تکمیل کر دینا۔ بعد از توبہ جسم کو ایسی مشقتیں دینا کہ جس طرح مشقتوں سے قبل اس نے بہت آرام پایا ہو۔ فرمایا کہ توکل نام ہے اتباع علم اور یقین کامل کا پھر فرمایا کہ توبہ کے وقت در مغفرت کھل جاتا ہے۔
انتقال کے وقت جب لوگوں نے سوال کیا کہ آپ کو یہ مراتب کیسے حاصل ہوئے؟ فرمایا کہ میں نے چالیس سال قلب کی اس طرح نگرانی کی ہے کہ یاد الٰہی کے سوا اس میں کسی کو جگہ نہیں دی، حتیٰ کہ میرے قلب نے خدا کے سوا ہر شے کو فراموش کر دیا۔ پھر فرمایا کہ میرا آخری وقت نہ ہوتا تو میں اس راز کو افشا نہ کرتا۔ یہ فرما کر آپ کا انتقال ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post