روزنامہ امت میں ڈاکٹر سیلس سلطانہ چغتائی صاحبہ کا کالم بعنوان ’’استاد کا رتبہ‘‘ دو اقساط میں شائع ہوا، جس میں ڈاکٹر صاحبہ نے استاد کے رتبے اور اعلیٰ مقام کو بہت عمدہ اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں، جن میں استاد کو عزت اور احترام دیا جاتا ہے۔ مغرب ہو یا مشرق دونوں ہی میں استاد کو ایک عالی شان درجہ عطا کیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ استاد کو سرکار دو عالم حضرت محمد مصطفیٰؐ کے ساتھ ایک خصوصی نسبت حاصل ہے۔ سرکار دوعالمؐ نے فرمایا: ’’بے شک مجھے تو استاد بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ گویا درس و تدریس اور کتاب و حکمت نیز تزکیہ نفس کی تعلیم دینے والا ہر شخص مرد ہو یا عورت، براہ راست حضور اقدسؐ کے دامن عفت سے بندھا ہوا ہے۔ نبی اکرمؐ نے استاد کو روحانی باپ کے رتبے پر فائز فرمایا ہے۔ حدیث پاک ہے: ’’تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تجھے عدم سے وجود میں لایا، دوسرا وہ جس نے اپنی بیٹی تیرے نکاح میں دی اور تیسرا وہ جس نے تجھے زیور علم سے آراستہ کیا‘‘۔ حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’جس نے مجھے ایک حرف بھی سکھایا وہ میرا آقا ہے۔‘‘ اسلامی تمدن اور دینی معاشرت گواہ ہے کہ استاد اور شاگرد کا ایسا اٹوٹ رشتہ قائم ہوتا تھا کہ شاگرد اپنے استاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنا لیتے تھے۔ اسی طرح آج بھی مشرقی تعلیمی کلچر میں طلبہ اپنے ادارے کے نام کو اپنے نام کے ساتھ جوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یاد رکھئے گا کہ استاد ایک مینہ برساتا بادل ہے۔ اس کے علم کی بارش سے وہی شاگرد فیض یاب ہوتے ہیں، جن کا ذہن زرخیز ہوتا ہے اور دل ثمر بار ہونے کی تمنا سے لبریز ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے باران رحمت سے وہی مٹی سرسبز و شاداب ہوتی ہے، جس میں پاک آب صفا جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے… میں تقریباً چالیس برس تک تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہا۔ شوق کی تسکین کے لئے شروع میں ٹیوشن پڑھائی، جس کا اختتام پی اے ایف ڈگری کالج بیس فیصل سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر قبل از وقت ریٹائرمنٹ پر ہوا۔ تعلیمی وتدریسی میدان میں انگریزی، اردو، اسلامیات، پاک اسٹڈیز اور اخلاقیات کے مضامین پڑھائے۔ خدا تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے میرے ہزاروں شاگرد ہیں، جن میں مضافاتی گاؤں گوٹھوں کے بچوں، علمائے حق اور دور جدید کے تقاضوں کی تلاش کرنے والے طبقہ اشرافیہ کے لڑکے اور لڑکیاں سب ہی شامل ہیں۔ میں تمام سنہری بچوں کو اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہتا اور سراہتا ہوں۔ ’’امت‘‘ کے انہی صفحات پر میں اکثر ان بیٹے اور بیٹیوں کا ذکر کیا کرتا ہوں۔ خدا کا شکر کہ اس کا مقصد ہر گز خود نمائی، نفس کو پھلانا یا پھر حسن تعلی نہیں ہے۔ کیا اپنی اولاد کے کارناموں اور ارادت مندی کا اظہار کرنا ذاتی ستائش، دکھاوا اور ریا کاری ہے؟ ہر گز نہیں۔ میں ایسا تحدیث بالنعمت کے طور پر کرتا ہوں اور خدا پاک کا شکر ادا کرتا ہوں کہ زندگی کے توشہ خانے میں میرے لئے ان گنت صدقہ جاریہ کا خزانہ موجود ہے۔ پاکستان میں اور سمندر پار بے شمار قابل فخر شاگرد میری مدد اور معاونت کے لئے سرگرم ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے میری سگی اولادیں۔ میں خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوکر ان فرمانبردار اطاعت گزار بیٹے اور بیٹیوں اور ان کی اولادوں کے لئے دعائے خیر کرتا ہوں۔ آج میں آپ کو ایسے ہی محبت کرنے والے ایک قابل فخر شاگرد کا احوال سناؤں گا۔ میں اس کا نام ارادتاً نہیں لکھوں گا، کیونکہ حاسدوں کی کمی نہیں ہے یارو… ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ میرا یہ شاگرد 81-83ء کے بیچ میں شاہین کالج پی اے ایف بیس فیصل میں ان ہیرا موتی اسٹوڈنٹس میں سے ایک ہے، جن کے سامنے میں نے پی اے ایف میں اپنے ٹیچنگ کیریئر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ کھیل کود کی سرگرمیوں اور اسٹیج شوز کی پرفارمنس سے لے کر کالج میں ہونے والی تمام تر شرارتوں میں اس کا نام سرفہرست ہوا کرتا۔ وقت گزرتا گیا اس کا پنچھی اڑتے اڑتے دور افق میں غائب ہوگیا۔ پھر کئی برسوں کے بعد اطلاع ملی کہ وہ ایم بی اے اور بزنس کی کئی اسناد اور تجربے کی مہارت کے ساتھ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے بعد اب ’’کے الیکٹرک‘‘ میں بڑا ذمہ دار ہوگیا ہے۔ میں نے اس سے رابطہ کیا۔ میری آواز سنتے ہی وہ نہال ہوگیا۔ اس نے مجھے ایک دلچسپ قصہ سنایا کہ 1983ء میں انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد اس نے مجھ سے آٹو گراف لیا تھا۔ میں نے اسے ’’عزیز من‘‘ سے خطاب کرکے نصیحت بھرا جو پیغام رقم کیا تھا، وہ آج بھی اس کے پاس محفوظ ہے اور وہ اس پیغام کی تحریر اپنے بچوں کو دکھاتا ہے اور مجھے نہایت پیار سے یاد کرتا ہے۔ میں نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے میرے قابل فخر شاگرد کے قلب و ذہن میں مجھے محفوظ رکھا۔ گزشتہ دنوں میری بیٹی نے فون کیا اور کہا: ’’ابو جی! گلشن معمار میں ہمارا گھر مکمل ہوگیا ہے، ہم اس میں شفٹ ہونا چاہتے ہیں، مگر تمام تر کوشش اور جدوجہد کے بعد، گھر کے سامنے کے الیکٹرک کا پول نصب نہیں ہو سکا ہے، پول کی تنصیب کے بعد ہی میٹر جاری ہوگا، آپ سے درخواست ہے کہ پلیز یہ کام کرا دیجئے۔‘‘۔ بیٹیوں کی خواہش اگر درخواست میں بدل جائے تو باپ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ میں نے فی الفور اپنے قابل فخر شاگرد سے رابطہ کیا اور اس سے گزارش کی کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر یہ کام کرادے۔ خدا کا شکر کہ اس نے کئی مہینوں سے رکا ہوا کیس سسٹم میں اپ گریڈ کیا اور پول کی تنصیب اور میٹر کے اجراء کے لئے سروے ٹیم بھجوا دی۔ یہ کام تیز پروسس میں ڈال دیا گیا ہے۔ خدا نے چاہا تو چند دنوں میں بیٹی کی خواہش پوری ہو جائے گی۔ میرا ہر شاگرد میرے لئے دل و جان نچھاور کرنے پر ہر لمحہ تیار رہتا ہے۔ اس خصوصی مہربانی پر میں مالک حقیقی کا ہر لمحہ شکر گزار رہتا ہوں۔ اس کالم کا مورال آف دی اسٹوری یہ ہے کہ ’’استادوں کو چاہئے کہ تدریس کو پروفیشن کے بجائے مشن بنالیں۔ روزی روٹی اتنی ہی ملے گی جتنی نصیب میں لکھ دی گئی ہے۔ اگر درس و تدریس مشنری جذبے کے ساتھ سر انجام دیں گے تو معاش میں برکت اور معاشرت میں عزت اور محبت ملے گی۔ ‘‘ یہی میرا حاصل کردہ تجربہ اور انمول خزانہ ہے اور یہی میری اس تحریر کا اخلاقی سبق بھی… دعاؤں میں ضرور یاد رکھئے گا کہ محتاج دعا ہوں، شکریہ۔
٭٭٭٭٭