’’نامدار ‘‘ کی جیت اور ’’کامدار‘‘ کی ہار

0

بھارت کے ’’اچھے دن‘‘ تو نہیں آئے، البتہ مودی کے ’’برے دن‘‘ ضرور آگئے ہیں۔ بھارت کا ہندو شاؤنسٹ حکمران جس کو اپنی زبان پر ناز تھا۔ اب اس کی بولتی بند ہو گئی ہے۔ بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے نتائج ان پانچ انگلیوں کی طرح ہیں جو کانگریس پارٹی کے انتخابی نشان کی طرح بند نہیں۔ ابھی تو چوبیس ریاستوں اور سات یونین ٹریٹوریز میں انتخابات ہونے ہیں، مگر پانچ ریاستوں کے انتخابات کے نتائج بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے اشارہ ہیں کہ اب اس کے اقتدار کا وقت پورا ہونے والا ہے۔ بھارت کے راج میں آنے والی اس تبدیلی کو دیکھ کر میڈیا بھی مودی سے اپنا منہ پھیرنے لگا ہے۔ زی ٹی وی جیسا مودی کا حامی اور راہل گاندھی کا مخالف چینل بھی اپنے آپ کو آنے والی تبدیلی کے لیے تیار کر رہا ہے۔
بھارت کے سارے سیاسی پنڈت اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا ہیں کہ بھارت کی پانچ ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کانگریس اور بھارتی راج کے درمیان منگنی ہے۔ یہ اقتداری شادی اگلے برس ہوگی۔ بھارت میں جمہوریت کی کوئی نظریاتی بنیاد نہیں ہے۔ بھارت میں آج بھی انتخابات میں کامیابی کے معاملے میں ’’مایا‘‘ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ وہ کانگریس جو کشکول لیے بھارت کے امیر افراد کے دروں پر پارٹی فنڈ لینے جاتی تھی اور اس کو اچھا جواب نہیں ملتا تھا، اب وہ انویسٹر اپنا پیسہ لیے کانگریس کی شرائط پر سیاسی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہیں۔ اب بی جے پی کا وہ حال ہوگا، جو کل کانگریس کا ہوا تھا، کیوں کہ اب بی جے پی ایک ڈوبتی ہوئی کشتی ہے۔ اب بی جے پی اپنی ناکامی کا سارا الزام نریندر مودی پر عائد کرے گی۔ کیوں کہ وہ کیپٹن تھا۔ وہ عام چائے والا لڑکا جس کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندو انتہا پسندی کو فروع دینے کے لیے ملک کا وزیر اعظم بنایا اور وہ اقتدار کے نشے میں یہ بھول گیا کہ بھارت ایک ہندو ریاست ہے۔ بھارت کی اسٹیبلشمنٹ اس بنیے جیسی ہے، جو گاہک کا دھرم نہیں دیکھتا۔ جس کی نظر صرف اپنے مفاد پر ہوتی ہے۔ اگر ہندو اپنے مذہب پر عمل کرنے کے سلسلے میں سمجھوتہ نہ کرتے تو وہ مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک میں مسلمانوں کی خدمت نہ کرتے۔ بی جے پی کا یہ خواب تھا کہ وہ بھارت کو جنوبی ایشیا کا اسرائیل بنائے، مگر بھارت اسرائیل نہیں بن سکتا۔ کیوں کہ بھارت بھانت بھانت کی بولیوں والا وہ ملک ہے، جس میں نہ صرف مذاہب بلکہ ثقافتوں کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والے تضادات پوری طاقت کے ساتھ موجود ہیں۔ بھارت میں صرف ہندو اور مسلمان کا تضاد نہیں، بلکہ بھارت میں ہندو اور سکھ تضادات اپنی شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ بھارت میں صرف ہندوؤں کا دیگر مذاہب کے ساتھ تضاد نہیں ہے، بلکہ ہندو دھرم اپنے درمیان بہت سارے تضادات کا مجموعہ ہے۔ اس تلخ حقیقت کو کون نہیں جانتا کہ جو شمالی بھارت میں بسنے والے ہندوؤں کے مذہبی ہیروز جنوبی بھارت میں بسنے والے ہندوؤں کے ولین ہیں۔ شمال میں راون کے پتلے کو جلایا جاتا ہے اور جنوب میں راون کے بت کی پوجا کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی ریاستوں کے درمیان جو تضادات ہیں، وہ بھارتی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارت کو اپنی ان کمزوریوں کا بخوبی علم ہے۔ اس لیے بھارت نے اپنے ریاستی وجود پر لگے زخموں کو جمہوریت اور سیکولرزم کی چادر سے چھپانے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس کوشش میں کس حد کامیاب ہوا ہے؟ اس ڈھول کا پول ہر انتخاب میں پوری طرح کھل جاتا ہے۔
اس بار بھی ایسا ہوا۔ ایک طرف بھارت کے جنونی ہندو ترشول لہراتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے لیے اپنے شہروں سے نکل رہے تھے اور دوسری طرف بھارت کو پھر بڑے دھچکے سے بچانے کے لیے وہاں کی اسٹیبلشمنٹ حرکت میں آئی، اس نے پس پردہ کانگریس کی مدد کی اور بی جے پی کو محسوس ہونے لگا کہ اب اس کے جانے کا سمے آگیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اب بھی کوشش کرے گی کہ وہ کوئی ایسا پتہ کھیلے، جس کی وجہ سے اس کی اقتدار کے پد سے روانگی اگلے پانچ برسوں کے لیے رک جائے، مگر یہ بہت مشکل ہے۔ بات صرف بھارتی عوام کی نہیں ہے۔ بات اس ریاست کی ہے، جو اپنے تحفظ اور اپنی توانائی کے لیے ہر سیاسی پارٹی کو ایک موقعہ فراہم کرتی ہے کہ وہ آئے اور بھارت کے لیے باہر سے کچھ لائے۔ مودی حکومت کا اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے وعدہ تھا کہ وہ آئے گا اور بھارت کے لیے اچھے دن لائے گا، مگر اس نے غیر ملکی حکمرانوں کو گلے لگانے کے علاوہ اور کچھ نہیں کیا۔ بھارت مودی حکومت کے دوران امریکہ سے دفاعی معاہدات میں جکڑتا رہا۔ مودی نے اپنی ’’جھپی‘‘ میں چین کو قابوکرنے کی کوشش کی، مگر وہ اس میں بری طرح ناکام رہا۔ بی جے پی کی حکومت برسوں سے افغانستان میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب نہیں ہو پائی۔ مودی حکومت نے کشمیر کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کی بھرپور کوشش کی، مگر کشمیر میں مودی حکومت کو منہ کی کھانا پڑی۔ مودی مجموعی طور پر ہر محاذ پر ناکام رہا۔ اس لیے بھارت کی اسٹیبلشمنٹ نے اس کو بتا دیا کہ اب اس ریاست کو اس کی خدمات درکار نہیں ہیں۔ اس طرح چند دن قبل جو پردھان منتری کڑکڑ کرتا تھا اور اپنے آپ کو بھارت کے سیاسی جنگل کا شیر سمجھتا تھا، اب وہ کسی بھیگی بلی کی طرح واچ ڈاگ جیسی میڈیا سے چھپتا پھر رہا ہے۔ اس کی پارٹی کو پتہ ہے اور وہ خودبھی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ بھارت کے عام لوگ ابھی تک ان تنکوں کی طرح ہیں، جن کو کوئی بھی ہوا اپنی سمت میں اڑا لے جاتی ہے۔ اب بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جو تبدیلی کی ہوا چلائی گئی ہے، اس میں مودی کے لیے اپنے قدم جمانا مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے۔ اب اس کو جانا ہی پڑے گا۔ کیوں کہ اس ملک کو پھر ایک اور نقاب پہننے کی ضرورت پیش آ رہی ہے۔ بھارت نے مودی کا نقاب پہنا، مگر اس نقاب میں بھارت کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اب بھارت نئے نقاب کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کانگریس کی طرف دیکھ رہا ہے۔
نریندر مودی اپنے آپ کو ’’کامدار‘‘ یعنی کام کرنے والا اور راہل گاندھی کو ’’نامدار‘‘ یعنی نام والا کہہ کر اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ مودی کہتا تھا کہ اگر راہل بغیر کاغذ پکڑے صرف اپنے پارٹی کے رہنماؤں کے نام بتائے تو وہ اس کو لیڈر ماننے کے لیے تیار ہے۔ نریندر مودی نے راہل گاندھی کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ وہ راہل گاندھی کو ’’پپو‘‘ کہہ کر بلاتا تھا۔ مگر اس پپو پر جب اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ رکھا تو اس کی پارٹی نے تین ریاستوں میں مودی کی پارٹی کو شکست سے دوچار کر لیا۔ ایک ریاست مدھیہ پردیش میں کانگریس اور بے جی پی کے ووٹ برابر ہیں۔ مذکورہ ریاست میں کانگریس نے 114 سیٹیں حاصل کی ہیں اور بی جے پی کے حصے میں بھی 109 سیٹیں ہیں، مگر یہ وہ ریاست ہے، جس میں گزشتہ انتخابات کے دوران بی جے پی کو حاصل ہونے والی سیٹیں کانگریس کو ملنے والی سیٹوں سے تین گنا زیادہ تھیں۔ 2013ء کے انتخابات میں بے جی پی نے 165 سیٹیں حاصل کی تھیں اور کانگریس کے حصے میں صرف 58 سیٹیں آئی تھیں۔ اس طرح اس بار اس ریاست میں بی جے پی نے بہت کچھ گنوایا ہے۔ جب کہ راجستھان میں تو بی جے پی کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اس نے پانچ برس قبل جس ریاست سے 163 نشستیں حاصل کی تھیں، اب اس کو وہاں سے محض 73 نشستیں حاصل ہوئی ہیں، جب کہ کانگریس کو پچھلی بار 21 اور اس بار 99 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ ریاست چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو بری شکست کا سامنا ہے۔ پچھلی بار اس نے وہاں سے 49 نشستیں جیتی تھیں اور اس بار اس کے حصے میں فقط 15 نشستیں آئی ہیں۔ جب کہ کانگریس نے پہلے 39 اور اب 68 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ تلنگانہ کی صورت حال کچھ مختلف ہے۔ وہاں بی جے پی اور کانگریس سے زیادہ اثر اس ’’ٹی آر یس‘‘ نامی پارٹی کا ہے، جو صرف ایک ایجنڈے پر سیاست کرتی ہے کہ اس نے تلنگانہ کو علیحدہ ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ وہاں پر بی جے پی کا اثر بہت کم ہے، مگر اس بار وہاں سے کانگریس پارٹی نے پہلے کے مقابلے میں دو چار نشستیں زیادہ حاصل کی ہیں، جب کہ ماضی میں اس ریاست سے 5 نشستیں جیتنے والی بی جے پی کو اس بار محض ایک نشست مل پائی ہے۔ جب کہ اس تلنگانہ میں گزشتہ انتخابات میں 63 سیٹیں حاصل کرنے والی تلنگانہ راشٹیہ سمتھی یعنی ٹی آر ایس نے اس بار 88 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ سیٹوں میں یہ اضافہ بھارت میں بڑھتی ہوئی علیحدگی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ ریاست میزورام میں بی جے پی کی بنیاد کبھی نہیں رہی، مگر اس بار وہاں پر کانگریس اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
اس وقت بھارت کا میڈیا کانگریس کی پیش قدمی اور بی جے پی کی پسپائی کا سبب یہ بیان کر رہا ہے کہ مودی نے جو ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا، وہ پورا نہیں کیا۔ وہ کانگریس کی کامیابی کا اہم سبب اس بات کو بھی قرار دے رہا ہے کہ اس بار کانگریس نے کسانوں کو پیکیج دینے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر بھارت کی ریاست کا ترجمان میڈیا اس بات پر ایک لفظ بولنے کے لیے تیار نہیں کہ مودی کی شکست کا بنیادی سبب بھارت کے کمزور ریاستی ڈھانچے کو مزید کمزور کرنا ہے۔ بھارت بڑی مشکل سے اپنے ریاستی وجود کو متحد رکھنے کی کوشش کرتا ہے، مگر مودی کی انتہا پسند سوچ نے بھارت میں موجود تضادات کو مزید تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
بھارت نے مودی کا نقاب اتار کر راہل گاندھی کا نقاب پہننے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس تبدیلی کا سبب یہ نہیں کہ بھارت میں اب مودی کے بجائے راہل گاندھی کی مورتیوں پر گیندے کے زرد پھول نچھاور کیے جائیں۔ اس تبدیلی کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت کانگریس کی حکومت کا نقاب پہن کر پاکستان کی طرف اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس بار پاکستان کو پہلے سے زیادہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ یہ کامدار اور نامدار کے درمیان مقابلے کا معاملہ نہیں۔ یہ ریاست کی پالیسی میں تبدیلی ہے۔ بھارت میں آنے والی اس تبدیلی میں پاکستان کے خاموش کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More