ہائیڈ پارک
شیراز چوہدری
ہمارا رب کتنا مہربان ہے، وہ ہمیں کتنی مہلت دیتا جاتا ہے، کس طرح ہمارے پردے رکھتا ہے۔ اس کا احساس ایک بار پھر گزشتہ دنوں اس وقت ہوا، جب شیخ رشید کی ویڈیو لیک ہوئی، دیکھیں کسی ایک بندے کے ہاتھ وہ ویڈیو چڑھ گئی اور اس نے اسے پوری دنیا میں پھیلا دیا اور وہ اسے اپنا کارنامہ بھی سمجھتا ہوگا۔ شیخ رشید ہی کیا، یہ تو اب معمول بن گیا ہے کہ کسی نہ کسی شخصیت کی ویڈیو یا آڈیو لیک ہو جاتی ہے اور پھر اسے سوشل میڈیا کے سمندر میں بہا کر ہم دنیا کے کونے کونے میں پہنچا دیتے ہیں، اسے لوگ کارخیر سمجھ کر پھیلا رہے ہوتے ہیں، ساری دنیا کے سامنے اسے ننگا کردیتے ہیں، اس کا مذاق بنوا دیتے ہیں، شیخ رشید جیسا ہوشیار بندہ بھی بڑی آسانی سے اس جال میں پھنس گیا اور اپنا نقصان کروا بیٹھا، بعد میں یہ شکایت کرتا پایا گیا کہ لوگ نجی گفتگو بھی ریکارڈ کرلیتے ہیں۔ شیخ رشید احمد ویڈیو میں کسی کو اپنے وزیر اطلاعات بننے کی نوید دے رہے تھے، اپنی اہمیت جتا رہے تھے کہ وزیر اعظم عمران خان کے لئے وہ کتنے اہم ہیں۔ ان سے ایک دن میں تین تین بار ملاقاتیں کی جاتی ہیں، لیکن اس لیک ویڈیو نے شیخ رشید کو وقتی طور پر تو نہ صرف زیرو کردیا، بلکہ اگر اطلاعات کی وزارت کے لئے کوئی خواب تھے تو وہ بھی چکنا چور کردیئے، حتیٰ کہ انہیں خود یہ اعلان کرنا پڑا کہ وزارت اطلاعات کی پیشکش کی گئی، تب بھی وہ اسے قبول نہیں کریں گے،حالاں کہ انہوں نے قبول نہ کرنی ہوتی تو یوں مزے لے لے کر اس وزارت کے بارے میں باتیں ہی نہ کرتے۔ یہ اور بات ہے کہ ویڈیو لیک ہونے کے بعد رنگ میں بھنگ پڑگیا۔ اب وہ چاہتے تو تب بھی یہ بھنگ والا پیالہ پینا کم ازکم فوری پینا ممکن نہیں تھا۔
ایک طرف ہم انسانوں کی یہ حالت ہے اور دوسری طرف ہمارا رب ہمارے کتنے پردے رکھتا ہے، اس کے پاس ہمارے ہر لفظ کا ریکارڈ ہوتا ہے، وہ ہمارے ہر گناہ سے واقف ہوتا ہے، جس چیز کا ہم ارادہ کرتے ہیں، وہ اس سے پہلے ہی آگاہ ہوتا ہے، ہم اپنے رب کی نافرمانیاں کر رہے ہوتے ہیں، گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں، اسے ناراض کرنے والے کام کر رہے ہوتے ہیں، لیکن وہ مہربان رب یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہمارا
پردہ رکھتا ہے، ہمارے عیبوں کو ڈھانپ دیتا ہے، ہماری کوئی چیز کسی دوسرے پر ظاہر نہیں کرتا، اپنی مخلوق سے درگزر کرتا ہے، بندے کی آخری سانس تک اسے سنبھلنے کے اور معافی مانگنے کے مواقع دیتا ہے، بلکہ وہ تو یہ بھی فرماتا ہے کہ آخرت میں جب سب کچھ سامنے لے آیا جائے گا، وہاں بھی وہ جس کا چاہے گا، پردہ رکھے گا۔ ایک بڑے پردے کا تو اس نے سب انسانوں سے وعدہ کیا ہے، قیامت کے روز وہ لوگوں کو ان کے باپ نہیں، بلکہ ماں کے حوالے سے شناخت کرے گا۔ دوسری طرف انسانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس ڈی این اے کی ٹیکنالوجی آگئی ہے، تو وہ اس کا بھی غلط استعمال کر رہے ہیں۔ زندہ انسانوں ہی نہیں مردوں کی بھی نسل چیک کرتے پھر رہے ہیں۔
رب العالمین نے انسان کی نظر اور سماعت کی ایک حد رکھی تھی، انسانی آنکھ ایک خاص فاصلے سے آگے دیکھ سکتی ہے اور نہ کان سن سکتا ہے، اس میں رب کی حکمت تھی، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر مخلوق کو زیادہ بصارت اور سماعت دی گئی، تو وہ فساد کا سبب بن جائے گا، یعنی رب العالمین نہ صرف خود اپنے بندوں کے پردے رکھتا ہے، بلکہ اس نے دوسروں کی زیادہ نظروں سے بھی ہمیں محفوظ رکھا، لیکن کیا کیا جائے کہ حضرت انسان خود اپنے آپ کو ننگا کرنے پر تلا ہوا ہے، بالخصوص جب سے کیمرے والے موبائل آئے ہیں، جاسوس کیمرے دستیاب ہوئے ہیں، انسان بہت غیر محفوظ ہوگیا ہے، اب ہر وقت آپ کسی نہ کسی کی نظر میں ہوتے ہیں، کسی کی کوئی بات محفوظ ہے اور نہ کوئی عمل۔ عملی طور پر ہر وقت آپ کسی نہ کسی کی نگرانی میں رہتے ہیں، کہیں سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعے مانیٹرنگ ہو رہی ہوتی ہے اور کہیں موبائل فون، کمپیوٹر، ٹی وی یا کوئی اور الیکٹرانک آلہ آپ کی نقل و حرکت کی کہیں نہ کہیں اطلاع پہنچا رہا ہوتا ہے، آپ کیا بات کر رہے ہیں، کیا کھا رہے ہیں، کیا چیز آپ کو پسند ہے اور کیا ناپسند، سب کچھ کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہو رہا ہوتا ہے، آپ کے رجحانات کا زائچہ بن رہا ہوتا ہے، سیٹلائٹ مانیٹرنگ کرنے والے درجنوں عالمی ادارے الگ ہیں، جو فضائوں سے آپ پر نظر رکھے ہوئے ہوتے ہیں، انسان کے پاس یہ ٹیکنالوجی آئی ہے، تو اس نے اپنے بے صبرے پن کا بھی اظہار کر دیا، اس کا دوسرے انسانوں سے حسد سامنے آگیا، جب ہم دوسروں کی عیوب والی ویڈیو اور آڈیوز شیئر کرکے کر رہے ہوتے ہیں، تو اصل میں یہ اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے میں ہمیں بہت مزہ آتا ہے، ابھی تو انسان نے دوسروں پر نظر رکھنے اور انہیں سننے کی ٹیکنالوجی ایجاد کی ہے اور دنیا میں اتنے فساد ہو رہے ہیں، انفرادی سے لے کر ریاستوں کی سطح تک بے اعتمادی پیدا ہو رہی ہے، (وکی لیکس اور سنوڈن اس کی مثالیں ہیں)۔ اگر انسان اس سے آگے نکلا اور دماغ پڑھنے کی جس ٹیکنالوجی کی وہ تلاش میں ہے، وہ اس میں کچھ کامیاب ہوا تو یقین رکھیں کہ دنیا میں پھر اتنا فساد برپا ہو جائے گا، انسان انسان کا اور ریاستیں ریاستوں کی اتنی دشمن بن جائیں گی کہ انسانیت کے وجود کو ہی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے، کیوں کہ انسان ایک دوسرے کے خلاف جتنا منفی سوچتا ہے، جس طرح کے منصوبے بناتا ہے، جس طرح اسے دوسرے انسانوں کو رسوا کرنے میں مزا آتا ہے، اگر اس سے انسان آگاہ ہونے لگے، تو پھر ہر کوئی ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوگا، چاہے وہ انفرادی انسان ہوں یا ریاستیں۔ لیکن انسان اس تباہی کی طرف سفر سے رکتا نظر نہیں آتا، بلکہ وہ یہ سفر بہت پہلے شروع کر چکا ہے۔ امریکہ میں سی آئی اے کی ساٹھ کی دہائی کی جو فائلیں جاری کی گئی ہیں، ان میں دماغ پڑھنے کی ٹیکنالوجی کے لئے تجربات کا ذکر موجود ہے، اگر ساٹھ کی دہائی سے یہ تجربات چل رہے ہیں تو اب وہ کہاں تک پہنچ گئے ہوں گے، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭