داداجی سال میں غریبوں کے لئے ’’بڑا کھانا‘‘ ضرور کرتے

0

محمد فاروق
اس زندگی کی بے شمار خوبیوں، انگنت حسین یادوں اور لاتعداد انمول واقعات میں صرف ایک بمثل نمونہ از خروارے عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں، تو امید ہے آپ کو ماضی کے اس دریچے کے اندر جھانک کر اس دور کے نقش و نگار کا آنکھوں دیکھا حال بھی معلوم ہوجائے۔
ہم سال میں کبھی کبھی تو دو دفعہ ورنہ ایک بار ضرور ’’خیرات‘‘ کا اہتمام کرتے تھے۔ یہ ایک طرح سے غریبوں کے لیے ’’بڑا کھانا‘‘ ہوتا ہے۔ جو آج بھی پشتون معاشرے کے کئی علاقوں میں مروج چلا آرہا ہے۔ ایک بہت ہی قوی الجسم اور ہیبت ناک قسم کے بیل یا بھینسے کو تین چار طاقتور خدمت گاران کی مدد سے اسپتال کے لان میں ٹھیک اس ’’قربان گاہ‘‘ کے مقام پر پہنچایا جاتا تھا، جس کی نشان دہی ہمارے دادا جان فرماتے، جو اس سارے ’’ایونٹ‘‘ (Event) کے انچارج ہی نہیں، روح رواں ہوا کرتے تھے۔ جانور ذبح کرنے، گوشت کاٹنے، دیگوں میں ڈالنے اور آگ جلائے جانے کے مراحل بمشکل نماز عشا کے بعد تک مکمل ہو جاتے۔ اس دوران ہم سب کالونی کے بچوں یعنی تحصیلدار صاحب کے بچوں اور ہمارے لیے دلچسپیوں کے مختلف اور بے شمار مواقع تو تھے ہی، ایسے موقعوں پر دور و نزدیک کے دوسرے دوست بھی حاضر ہوکر، نوکروں، پکانے والوں، ہدایات دینے اور لینے والوں کی ایک ایک حرکت کا جائزہ بڑی باریک بینی سے لیتے اور وہ تبصرے پیوست کرتے کہ کئی کئی دن تک اس رومانوی ماحول کا نشاط کافور نہ ہوتا۔ کسی مقررہ وقت تک دیگوں کے نیچے آگ جلتی رہتی۔ پکانے والوںکی موجودگی کے باوجود، اچانک، دادا جان حکم صادر فرماتے: ’’بس…! آگ بجھائی جائے۔ گوشت پک چکا‘‘۔
گھر سے آٹا لانے کا حکم دیا جاتا۔ دیگوں کے ڈھکنوں کو آٹا گوند کر اس واسطے اچھی طرح ’’سیل‘‘ کیا جاتا… اور ڈیوٹی پر موجود اسپتال اور ہمارے ذاتی نوکروں کو ہدایت بھی جاری کر دی جاتی کہ رات بھر جاگ کے گزارنا ہے، کہ مبادا، عاشقان گوشت میں سے کوئی دیگوں میں پکے گوشت سے ’’نامناسب‘‘ انداز میں استفادہ نہ فرمائے…، ورنہ کل جو مخلوق خدا امنڈ آئے گی اور گوشت کم پڑ گیا تو ناک تو کٹ جائے گی!۔ صبح سویرے چاول پکانے کا مرحلہ جو شروع ہوتا، تو یہ تنازعہ دادا جان کے ’’ویٹو پاور‘‘ استعمال کیے بغیر لاینحل ہی رہتا… کہ چاول اور گوشت کا تناسب کیا ہونا چاہیے؟
ایک طرف سے آواز آتی: ’’سارے گوشت میں چاول مکس پکایا جائے، اور پھر انہی مکس چاول میں سے لوگوں کو کھانا نکال کر دیا جائے۔ ہر کسی کی اپنی ’’قسمت‘‘ ہے کہ اس کے حصے میں کتنا گوشت آتا ہے۔ ہم ’’بری الذمہ‘‘ ہونگے‘‘۔
دوسری طرف سے مشورہ عنایت ہوتا: ’’نہیں نہیں…، بے وقوف آدمی…! یہ بچوں کاکھیل تو نہیں، ڈاکٹر صاحب کی خیرات ہے، ڈاکٹر صاحب کی۔ تمہیں معلوم نہیں علاقے کے سارے خانوں کو نقارہ بجا کر اطلاع دی گئی ہے۔ اب جو فلاں خان اتنی دور سے پیدل چل کر خالص ڈاکٹر صاحب کی ’’محبت‘‘ میں یہاں تشریف لے آئے گا، تو کیا… بے وقوف آدمی…! تم اس کی خاطر اس آڑے وقت میں دیگ کے اندر بوٹیاں تلاش کرتے پھرو گے؟ میں تو کہتا ہوں سرے سے چاول میں گوشت ڈالا ہی نہ جائے۔ اس کے لیے شوربہ کافی ہے‘‘۔
تیسری طرف سے ایک اور حکمت بالغہ کا اعلان ہوتا۔ ’’او عقل کے مارے…! جو چاول بغیر گوشت کے پک جائے، وہ کیا منہ لگانے کے قابل بھی ہوتا ہے؟ پاگلوں کی باتیں کرتے ہو… زیادہ نہیں، تو آدھا گوشت چاولوں کے ساتھ جانا ہی چاہیے، باقی ماندہ گوشت کے ساتھ پھر جو مرضی کرو‘‘۔
’’دیکھو! گوشت تین حصوں میں تقسیم کرو۔ دو حصے چھوڑ دو، اسے مہمان کو چاولوں پر اوپر ڈال کر پیش کرو گے۔ باقی تیسرے حصے کا گوشت چاول میں ڈال دو… تو وہ بھی ’’بے مزہ‘‘ نہیں رہے گا… دادا جان کا فیصلہ آجاتا‘‘۔
اب سب اتفاق سے پکار اٹھتے تھے۔ ’’میں نہ کہتا تھا، کہ ایسا ہی کرو۔ لیکن ہماری بات سنتا کون ہے؟۔ یہ ’’مشران‘‘ (بزرگ) ہمارے درمیان نہ ہوتے، تو نہ معلوم ہمارا کیا حال ہوتا۔
دس بجے تا چار بجے کھانا کھانے اور کھلانے کے دوران جو لطیفے پیش آتے، انہیں بیان کرنے کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہے۔ البتہ اس واقعہ عظیم پر گفتگو کا سلسلہ ڈیڑھ دو ماہ تک برابر جاری رہتا۔
’’حزب اختلاف‘‘ کی جماعت، ظل سجانی کے حضور پیش ہوکر کچھ یوں دل کی بھڑاس نکالتی: ’’ڈاکٹر صاحب! اللہ آپ کی نیک قبول کرے…۔ آپ نے جو کچھ کیا خدا کے نام پر کیا۔ کسی چیز کی کوئی کمی آپ کی طرف سے تو نہیں تھی۔ مگر یہ فرید زمان ہیں نا… آج تک اس بندے کے ہاتھوں… خدا کی شان ہے… ڈھنگ کا کوئی کام ہوا ہی نہیں۔ اتنا بڑا جانور…! جو ہم چار بندوں سے قابو ہی نہیں ہو رہا تھا، اور پھر گوشت کاٹتے کاٹتے عشا کی اذانوں تک ہمارے تو ہاتھ شل ہوگئے تھے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیںآئی… یہ اتنا گوشت گیا کہاں؟… دیکھتے نہیں تھے یار…! (دوسرے ساتھی کی طرف اشارہ کر کے) دو بجے کے بعد آنے والوں کے لئے تو چاول کے ساتھ اضافی گوشت سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ خدا گواہ ہے، مجھے نہیں معلوم، رات کو ڈیوٹی کس کی تھی…۔ گمان حرام ہے، اللہ جھوٹ بلوائے، مگر کسی ظالم نے رات کو گوشت پر ضرور ’’ہاتھ صاف‘‘ کیا ہے… ان لوگوں کا کیا… ناک تو ہماری کٹ گئی نا…‘‘۔
مدح سراؤں کا گروپ حاضر ہوتا… تو کچھ یوں نقشہ کھنچ جاتا… ’’ڈاکٹر صاحب…! آپ تو جانتے ہی ہیں، در در اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکا ہوں۔ یہ فلاں خان صاحب اور اس دوسرے علاقے میں خوانین… جن سے جدی پشتی خاندانی تعلقات ہیں… میرے بغیر کوئی پروگرام کرتے ہی نہیں۔ شادی بیاہ ہو، یا خیر و خیرات… ہر ہر موقع پر اللہ کی مہربانی سے حاضر رہتا ہوں۔ لیکن یہ جو ابھی آپ کا پروگرام ہوا ہے نا… اس کی تو مثال ملنی مشکل ہے۔ جس طرح ٹھیک چار بجے تک ہر ہر فرد تک ٹھیک ٹھیک کھانا پہنچا ہے۔ جس طرح اللہ نے اس گوشت میں برکت دی تھی… یہ تو میں نے زندگی میں کہیں دیکھا ہی نہیں… میں نے تو سب کے سامنے برملا کہا، کہ یہ پروگرام کسی اور کا باپ بھی نہیں کر سکتا…۔ اور اگر کرے گا بھی تو ہمارے ڈاکٹر صاحب ہی آئندہ یہ کر سکے ہیں۔ یہ کسی مائی کے لعل کا کام ہے ہی نہیں…‘‘۔
ہمارے ظل سبحانی یہ متضاد و متناقض تبصرے سماعت فرما کر قطعاً یہ سمجھنے سے قاصر رہتے کہ آیا… واقعی ’’یہ کام کسی اور مائی کا لعل کر ہی نہیں سکتا‘‘۔ یہ اعزاز صرف ان کے حصے میں آیا ہے… یا یہ کہ رات کو ڈیوٹی میں کسی سے ضرور کوئی کوتا ہی ہوئی ہے، کسی نے گوشت پر ہاتھ صاف کیا ہے… ناک کٹ گئی ہے… اور اب، کچھ نہیں تو ان ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں پھر، دادا جان کی ذات اقدس کی رہنمائی شامل حال نہ ہوتی، تو نوکروں کی شامت آنی تھی… اور کسی بھی نامناسب ردعمل کا قوی امکان موجود ہوتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More