’’اس میں سوچنے والی کیا بات تھی، پاکستان ہمارے لئے مسجد کی طرح ہے، کوئی مسجد پر حملہ کرے تو کون سوچنے بیٹھے گا اور کون جمع تفریق میں وقت لگائے گا؟ ہمارے آباؤ اجداد نے یہ مسجد بنائی تھی اور ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اس مسجد کی حفاظت کی کوشش کی، یہ دکھ اپنی جگہ کہ ہم اس مسجد کو بچا نہ سکے۔‘‘ حیدر علی حیدر کے لہجے میں جذبات کی آنچ بھی تھی اور دکھ اور افسردگی کا کھولاؤ بھی۔ حیدر علی حیدر پاکستان میں ان پاکستانیوں کی آواز ہیں، جنہیں پاکستان پاکستانی ماننے سے انکاری ہے۔ یہ وہ پاکستانی ہیں، جو وطن پر حملے کے وقت جارح کے سامنے آکھڑے ہوئے، غدار کہلائے، مار کر پھینک دیئے گئے اور آج بھی سفید داڑھیوں، ناتواں جسموں کے ساتھ پھانسی کے پھندوں پر جھول رہے ہیں۔ اکہتر کے سانحے کے بعد جنہوں نے بنگلہ دیش پر پاکستان کو ترجیح دی، انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر مختلف شہروں کے مضافات میں بنائے گئے مہاجر کیمپوں میں دھکیل کر خاردار تاریں لگا دی گئیں کہ جاؤ پاکستان کو آواز دو، کہو تمہیں آکر لے جائے اور آج تک ان کیمپوں میں جانوروں کی سی زندگی گزارنے والے یہ پاکستانی پاکستان پاکستان پکار رہے ہیں۔
حیدر علی حیدر محصورین پاکستان کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں، تن تنہا آدمی ہیں، جانے کس طرح پیٹ کاٹ کر یہاں وہاں سے چندہ کرکے گورنر ہاؤس کے سامنے ایک ہال میں سقوط ڈھاکہ پر سیمینار منعقد کراتے ہیں، جہاں پاکستان کے اس بازو کا ذکر ہوتا ہے، جسے کاٹ کر علیحدہ کر دیا گیا، سولہ دسمبر کی اس منحوس شام کی بات ہوتی ہے، جس کی نحوست دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک کو آدھا کر گئی، ڈھاکہ کے پریڈ گراؤنڈ میں شکست تسلیم کر لی گئی اور بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔ حیدر علی حیدر کی یہی بڑی خدمت ہے کہ وہ سقوط کی شام غریباں تو منا لیتے ہیں، ورنہ لوگوں کے پاس ایسے کاموں کے لئے وقت کہاں؟
گردش ایام اور ماہ و سال کا پیمانہ کیلنڈر جب اپنے آخری ورق پر پہنچ کر 16کے ہندسے کی طرف بڑھتا ہے تو سیلانی کے دل کی عجیب کیفیت ہونے لگتی ہے۔ بے چینی و اضطراب بڑھنے لگتا ہے۔ اندر کی پاکستانیت پاکستان کے نصف ہونے کا سوال اٹھانے لگتی ہے اور سیلانی قلم اٹھا کر یہ سوال سب کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ آج بھی ایسی ہی کچھ کیفیت تھی۔ اس نے چاہا کہ ڈھاکہ میں محصورین پاکستان کے بزرگ راہنما عبد الجبار خان صاحب کو کال کرلے، لیکن سچی بات ہے ہمت نہیں ہوئی۔ سال بھر پہلے بھی جب سیلانی کی خان صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے سخت ناراضی کا اظہار کیا تھا، جو بالکل بجا تھا۔ پاکستان کی آس میں ان کا توانا وجود سفر کرتے کرتے جھریوں بھرا کمزور بدن بن چکا ہے۔ سینتالیس برس ہو رہے ہیں، نصف صدی ہونے کو ہے اور ان کا انتظار ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ بحیثیت پاکستانی سیلانی میں ہمت نہ تھی کہ ان سے بات کرتا، لیکن کسی سے بات تو کرنی تھی، جی کا بوجھ بھی تو ہلکا کرنا تھا۔ اب سوال یہ تھا کہ کس سے بات کی جائے؟ کون ہے جو اس پامال موضوع پر بات کرتا؟ حال میں الجھے ہوئے بے حال لوگوں میں کس کے پاس گڑے مردے اکھاڑنے کا وقت ہے۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر حیدر علی حیدر صاحب کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔ انہوں نے دوسری کال پر ہی فون اٹھا لیا۔ کچھ دیر رسمی گفتگو ہوتی رہی، پھر سیلانی نے عرض کیا: ’’سر! وہی دسمبر اور وہی تاریخیں…‘‘
’’ہاں وہی دسمبر اور وہی تاریخیں‘‘
پھر ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگے: ’’کاش کہ یہ سولہ دسمبر کی تاریخ نہ آئی ہوتی… مجھے اس ہندسے سے نفرت سی ہے، زہر لگتا ہے یہ سولہ کا ہندسہ، اتفاق کی بات ہے کہ
میں اس وقت سولہ برس کا ہی تھا اور وہیں ڈھاکہ میں تھا، اب بھی میری آنکھوں کے سامنے یہ سارے مناظر کسی فلم کی گھوم رہے ہیں، آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ میری اس وقت کیا کیفیت ہے۔‘‘ وہ خاموش ہو گئے، جیسے لفظ ترتیب دے رہے ہوں یا سوچ رہے ہوں کہ کہاں سے شروع کروں، تھوڑی دیر بعد ان کی آواز سنائی دی۔
’’میں رضاکار تھا، جو پاک فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے، انہیں رضاکار کہا جاتا تھا، میں کمپنی کمانڈر بھی تھا، میرے ساتھ دو سو سے زائد محب وطن بنگالی بہاری نوجوان تھے، ان میں اکثریت کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا، ہم وہاں فوج کی آنکھیں اور کان تھے، مقامی فوجیوں نے بغاوت کر دی تھی، وہ مکتی باہنی والوں سے مل گئے تھے، غدار اور محب وطن کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا، ایسے میں ہم نے فوج کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور ان کے کیمپوں میں پہنچ گئے، ہمیں مقامی حالات کا بھی علم تھا اور راستوں، علاقوں، مقامات کا بھی، ہمیں وہ رضاکار کے نام سے پکارتے تھے یا البدر کے نام سے، یہ نام اب وہاں گالی بن گیا ہے، کسی پر پھبتی کسنی ہو، گالی دینی ہو تو اسے رضاکار کہہ دیا جاتا ہے، ہم مکتی باہنی اور قوم پرست بنگالیوں کے نزدیک غدار، دلال اور رضاکار تھے، لیکن ہمیں اس کی پروا کب تھی؟ پروا ہوتی تو پاکستان کا جھنڈا پکڑ کر فوج کے ساتھ کھڑے ہوتے؟ ہم نے فوج کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر آپریشن کئے۔ میں کمپنی کمانڈر تھا، مجھے جو حکم ملتا، وہ جیسے میرے لئے فرض ہو جاتا اور ہم ویسے ہی عمل کرتے، جیسے فوج کے ڈسپلن میں عمل کیا جاتا ہے، فوج کی انٹیلی جنس کا بھی ہم پر ہی بڑی حد تک انحصار تھا۔ مقامی ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاتھ بڑی اہم اطلاعات لگتی تھیں۔ آپ یقین نہیں کرو گے البدر میں ایسے ایسے محب وطن بھی تھے کہ جنہوں نے مکتی باہنی میں اپنے سگے رشتہ داروں کو پکڑوا دیا، انہیں پتہ چلا کہ فلاں فلاں جگہ مکتی باہنی کی میٹنگ ہونے والی ہے اور وہاں کسی کارروائی کی پلاننگ کی جائے گی تو وہ سیدھا فوجی کیمپ پہنچ گئے۔ ان کی اطلاعات پر فوج کارروائی کرتی، گرفتاریاں ہوتیں، جن میں ان کے رشتہ دار بھی ہوتے تھے، انہوں نے پاکستان کے لئے رشتوں کی قربانی بھی دے ڈالی‘‘۔
حیدر علی حیدر کوئی افسانوی قصہ گھڑ رہے تھے، نہ کوئی فرضی کہانی نہیں سنا رہے تھے۔ سلیم منصور خالد کی کتاب ’’البدر‘‘ ایسی ہی دلدوز واقعات سے بھری ہوئی ہے، جس میں ایک بھائی نے سگے بھائی کو اس لئے گرفتار کرا دیا کہ وہ جئے بنگلہ کا نعرہ لگا کر مکتی باہنی والوں سے جا ملا تھا اور تخریبی گوریلا کارروائیوں میں مصروف رہتا تھا۔ انہوں نے پاکستان کے لئے خون کا رشتہ بھی قربان کر دیا۔ سولہ دسمبر کے بعد مکتی باہنی کے بھارتی تربیت یافتہ ’’آزادی کے سپاہیوں‘‘ نے ان ’’غداروں‘‘ کو چوکوں چوراہوں پر لے جا لے جا کر سڑکوں پر لٹا لٹا کر سینوں میں سنگینیں گھونپیں، بھارتی نژاد امریکی مصنفہ شرمیلا بوس کی کتاب ckoning Dead Re پڑھ لیجئے، آنکھیں کھل جائیں گی۔
کمپنی کمانڈر حیدر علی حیدر بتانے لگے: ’’ہمیں تو
سقوط پاکستان کا علم ہی نہ تھا، ہم سے تو وائرلیس پر یہ کہا گیا کہ فائر بندی ہوگئی ہے، وہ تو بعد میں جب ہماری پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ ہتھیار ڈال دیئے گئے، مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش ہو چکا ہے اور ہم غدار قرار دیئے جا چکے ہیں، ہمیں پکڑ کر کیمپ میں ڈال دیا گیا، دو سال تو قیدی رہے، میرے ساتھ ظہیر خان بھی تھے، جو بعد میں پاکستان ٹیلی ویژن کے جنرل منیجر ہوئے‘‘۔
سقوط کے بعد حیدر علی حیدر کی کہانی سننے کے لئے بڑا دل چاہئے۔ مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے سر چڑھے بنگالی قوم پرستوں نے کس طرح پاکستان سے محبت کرنے والوں کا صفایا کیا، ان کے گھر بار لوٹے، ان کے باعصمت بیٹیوں کو اٹھا اٹھا کر لے گئے اور پھر جی بھرنے کے بعد کاٹ کاٹ کرکیچڑ میں پھینک دیا گیا، غلط پالیسیوں اور کمزور حکمت عملی کا نتیجہ ایسا ہی نکلنا تھا، بدمست فاتح شہر فتح کرنے کے بعد ایسا ہی کرتے ہیں۔
حیدر علی حیدر نے بتایا کہ وہ سولہ دسمبر کو کراچی میں سقوط پاکستان پر سیمینار کرنے جا رہے ہیں، جس میں پاکستان سے محبت کے جرم میں دو برس قید کاٹنے والے ظہیر خان بھی آرہے ہیں، یہ وہ ظہیر خان ہیں، جو ان کے ساتھ جنگی قیدی بنائے گئے اور بعد میں وطن پہنچنے پر پاکستان ٹیلی ویژن کے جنرل منیجر رہے۔ انہوںنے سیلانی کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ وہ کراچی میں ہوتا تو ان سچے اور پاکستان کے لئے کچھ کر گزرنے والوں کی محفل میں ضرور شریک ہوتا اور اسے باعث سعادت سمجھتا، لیکن وہ شہر اقتدار میں ہے، جہاں رہنے والے حاکم وقت کو سرحد پار کی سکھ اقلیت تو یاد رہ جاتی ہے، لیکن سابقہ مشرقی پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں پروان چڑھنے والے پاکستانیوں کی پانچویں نسل یاد نہیں… حاکم وقت پڑوسیوں کے لئے بانہیں کھول دیتا ہے اور صلاح دیتا ہے کہ ماضی سے آگے بڑھ کر شیر وشکر ہو جائیں، جب فرانس اور جرمنی یونین بنا سکتے ہیں تو بھارت اور پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟؟ وزیر اعظم صاحب کا یہ بیان اکھنڈ بھارت کے نظریئے سے کتنا قریب اور کتنے فاصلے پر ہے، اس سے قطع نظر روشن دن کی طرح سچ یہ ہے کہ بھارت کا مسئلہ پاکستان نہیں، اسلام ہے، انتہا پسند ہندو اس پاکستان کو کبھی ماننے کے لئے تیار نہیں، وہ تو اپنی سرحدوں میں اسلامی شہروں کے نام تک برداشت نہیں کر پا رہا، جس بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے سولہ دسمبر کے بعد فخر، غرور اور خوشی سے بھرے ایوان میں نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا اعلان کیا تھا، آج اسی بھارت میں اسلامی ناموں کے شہروں کی شناخت بدلی جا رہی ہے۔ 1583 عیسوی میں اکبر بادشاہ کے دور میں آباد ہونے والے شہر الہ آباد کا اسلامی نام تبدیل کرکے پرایاگرج رکھنے کا اعلان کیا جا رہا ہے اور بات یہیں تک نہیں رک رہی، اب اعظم گڑھ اریام گڑھ ہونے جا رہا ہے۔ برصغیر کی عظیم درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لفظ مسلم بھی کھرچنے کی تیاری کر لی گئی ہے۔ پڑوسیوں کی یہ انتہاپسندانہ سوچ صاف بتا رہی ہے کہ وہ ہمیں اک اور ’’سولہ دسمبر‘‘ دینا چاہتے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے قبائلی علاقوں میں قوم پرستی کے لبادے میں دراصل چانکیہ کا فلسفہ کام کر رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ کسی اور فیض احمد فیض کو ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی…‘‘ کہنی پڑے۔ سیلانی کبھی کسی اور حیدر علی حیدر کو کال کرے اور وہ افسردگی سے اسے کسی سیمینار میں شرکت کی دعوت دے رہا ہو۔ خدا ہمیں عقل دے، دشمن کی چالیں سمجھنے اور جالوں سے بچنے کی حکمت دے… سیلانی یہ سوچتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپ پر ڈھیروں افسردگی لئے سولہ دسمبر کی شام بنگلہ دیش میں پاکستانی پرچم اترتے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
٭
٭٭٭٭٭