حضرت ابن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ قرآنی آیات پر مشتمل بڑھیا کے جواب سن کر جب مجھے یقین ہو گیا کہ یہ قرآن کے علاوہ سے بات نہیں کرتی تو میں نے اس سے کہا: آپ میرے ساتھ اس طرح بات کیوں نہیں کرتیں، جس طرح میں آپ کے ساتھ بات کررہا ہوں؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’وہ کوئی لفظ منہ سے نہیں نکالنے پاتا، مگر یہ کہ اس کے آس پاس ہی ایک تاک میں لگا رہنے والا تیار ہے‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: آپ کا تعلق کس قبیلے سے ہے؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’اس چیز کے پیچھے مت ہولیا کرو جس کی بابت تجھے علم صحیح نہ ہو، بے شک کان اور آنکھ اور دل ان کی پوچھ ہر شخص سے ہوگی‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: یقیناً مجھ سے غلطی ہوئی، آپ مجھے معاف فرمائیں۔
بڑھیا: ترجمہ: ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں، خدا تمہیں معاف فرمائے‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: کیا آپ اس بات کو مناسب سمجھوگی کہ میں آپ کو اپنی اونٹنی پر سوار کراؤں، تاکہ آپ اپنے قافلے کے ساتھ مل سکو؟
بڑھیا: ترجمہ: ’’اور جو کوئی بھی نیک کام کرو گے، خدا کو اس کا علم ہوکر رہے گا۔‘‘ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: میں نے یہ کہہ کر اپنی اونٹنی کو بٹھایا۔
بڑھیا: ترجمہ: ’’آپ ایمان والوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اس سے کہا کہ آپ سوار ہو جائیں، جب وہ سوار ہونے لگی تو اچانک اونٹنی بدکی، جس کی وجہ سے اس کا کپڑا کجاوے میں الجھ کر پھٹ گیا۔
بڑھیا: ترجمہ: ’’اور جو مصیبت بھی تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کئے ہوئے سے پہنچتی ہے‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: آپ کچھ دیر انتظار کریں، تاکہ میں اس کو باندھ کر کجاوے کے تسمے درست کروں۔
بڑھیا: ترجمہ: ’’سو ہم نے اس فیصلے کی سمجھ سلیمان کو دے دی‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: میں نے اونٹنی کو باندھ کر اس کجاوے کے تسمے درست کئے اور اس سے کہا کہ سوار ہوجایئے، پھر وہ سوار ہوئی اور کہنے لگی:
بڑھیا: ترجمہ: ’’پاک ذات ہے وہ جس نے ہمارے تابع کردیا اس سواری کو اور ہم تو ایسے تھے نہیں کہ اس کو قابو میں کرلیتے اور ہم کو تو اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹنا ہے‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: میں نے اونٹنی کی لگام تھامی اور شور کرتے ہوئے تیز تیز چلنے لگا۔
بڑھیا: ترجمہ: ’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو پست رکھو‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: پھر میں شعر پڑھتے ہوئے آہستہ آہستہ چلنے لگا۔
بڑھیا: ترجمہ: ’’سو تم لوگ جتنا قرآن آسانی سے پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو‘‘۔ (القرآن)
حضرت ابن مبارکؒ: (میں نے کہا) مجھے حق تعالیٰ نے بہت کچھ دیا ہے (اور یہ کہہ کر قرآن پڑھنا شروع کردیا)
بڑھیا: ترجمہ: ’’اور نصیحت کو بس صاحبان فہم ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘ (القرآن)
(جاری ہے)
Prev Post
Next Post