ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہونے کو آج ساتواں روز ہے، لیکن اتنے دن گزرنے کے بعد بھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اعداد و شمار کے کھیل (نمبر گیم) میں مصروف ہیں۔ ادھر الیکشن کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ستائیس حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی منظوری دے دی ہے۔ لہٰذا ان نشستوں کے نتائج بھی تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نمبر گیم کا ایک پہلو یہ ہے کہ عمران خان سمیت کئی امیدواروں نے ایک سے زیادہ نشستوں کے لئے انتخاب میں حصہ لیا۔ ان میں سے ایک نشست رکھ کر باقی نشستیں خالی ہونے پر ضمنی انتخاب ہوگا۔ ان کے نتائج بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ارکان کی تعداد کم و بیش کرنے کا سبب بنیں گے۔ حالیہ انتخابات میں دھاندلی اور بعض قوتوں کی مداخلت کے الزامات کے باوجود جو نتائج سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق سندھ اور خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے سوا کہیں بھی کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ اس لئے جوڑ توڑ یا سیاسی اصطلاح میں گھوڑوں کی تجارت (ہارس ٹریڈنگ) جاری ہے۔ تحریک انصاف کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اگرچہ زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے، لیکن دونوں جگہ اسے سادہ اکثریت نہیں مل سکی۔ چنانچہ اس نے وہاں حکومت سازی کے لئے سودے بازی تیز کردی ہے، ساتھ ہی اپنے نمبر پورے ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے والے ایک اہم رہنما جہانگیر ترین کے علاوہ کچھ دوسرے رہنما بھی نمبر گیم کے پرانے کھلاڑی تصور کئے جاتے ہیں۔ جہانگیر ترین تو یوں بھی اپنی دولت کے باعث تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے اے ٹی ایم ہونے کی شہرت رکھتے ہیں، چنانچہ اپنی مہارت اور دولت کے بل بوتے پر وہ ملک بھر کے دورے کرکے مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد ارکان کو تحریک انصاف کی حکومت بنوانے میں مدد کے لئے رام کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاست سے ہٹ کر ہندسوں کا کھیل دراصل اطالوی طرز کے ایک جوا کا حصہ رہا ہے، جو آج کل امریکا کے اردگرد کے علاقوں میں غریب اور محنت کش طبقوں میں مقبول ہے۔ یہ نمبر ریکٹ، پالیسی ریکٹ، اٹالین لاٹری، پالیسی گیم یا ڈیلی نمبر کے نام سے کھیلا جاتا ہے۔ اس کے لئے مغربی ممالک اور بعض آزاد خیال مسلمان ملکوں میں بھی جگہ جگہ مراکز قائم ہیں، تاہم نمبر گیم کے لئے آج کل کئی شراب خانے، جوا خانے اور کیسینو کے نام سے ہوٹل قائم ہیں، جہاں روزانہ اربوں ڈالر کا جوا کھیلا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے خفیہ مراکز موجود ہوں گے، جہاں نمبر گیم کے نام پر جوا کھیلا جاتا ہوگا۔ تاہم ہمارے ملک کی ایک بڑی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ سیاست میں آئے دن نمبر گیم کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جو بڑے لوگوں کی مال و مناصب کی ہوس کو ظاہر کرتے ہیں۔ حقیقت میں مقتدر و متمول طبقے غریب شہریوں کے حقوق غصب کرکے اقتدار اور دولت کے حصول کی خاطر ان کی قسمتوں سے کھیلتے ہیں۔ یہ سلسلہ حالیہ عام انتخابات کے بعد پورے عروج پر نظر آرہا ہے۔
تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی جماعت کو ایم کیو ایم پاکستان کے بغیر بھی قومی اسمبلی میں ایک سو اڑسٹھ ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے، گویا موجودہ نمبر گیم یا گھوڑوں کی تجارت میں تحریک انصاف دوسروں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ اس کے باوجود وفاقی حکومت کی تشکیل کیلئے اسے قومی اسمبلی کے ایک سو بہتر ارکان کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہے۔ جن لوگوں نے ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، وہ اگر ایک ایک نشست رکھ کر بقیہ نشستیں خالی کردیں گے تو قومی اسمبلی میں آٹھ نشستیں کم ہو جائیں گی۔ اس طرح فواد چوہدری کے دعوے کے برعکس تحریک انصاف کی حمایت میں ایک سو ساٹھ نشستیں رہ جائیں گی، جبکہ اس کی اصل عددی قوت ایک سو ساٹھ سے بھی کم (ایک سو اٹھاون) ہے۔ سپریم کورٹ سے تحریک انصاف کے نااہل قرار دیئے جانے والے رہنما جہانگیر ترین گزشتہ روز ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اس کے بہادر آباد کراچی مرکز پر پہنچے، جہاں بعض امور پر دونوں جماعتوں کے درمیان مفاہمت نظر آئی، جبکہ ماضی میں یہ جماعتیں ایک دوسرے کی دشمن رہ چکی ہیں۔ جہانگیر ترین نے ایم کیو ایم کو کراچی کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کرائی، جن میں پانی کی قلت، کچرے کے ڈھیر، ماس ٹرانزٹ پروگرام اور بلدیاتی نظام جیسے مسائل اہم تھے۔ ان میں سے اکثر مسائل کا تعلق وفاق کے بجائے صوبائی حکومت سے ہے، جہاں حسب سابق پیپلز پارٹی برسر اقتدار ہوگی۔ تاہم جنرل پرویز مشرف کی طرح تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کراچی سے مخلص ہو تو وہ شہر کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔ کراچی کی ترقی و خوشحالی سے پورے ملک کی ترقی و خوشحالی وابستہ ہے، جبکہ یہ شہر قومی محاصل میں سب سے زیادہ (تقریباً ستر فیصد تک) ادائیگی کرتا ہے، پورے ملک سے کراچی میں آکر بسنے والے لوگوں کی وجہ سے کراچی کو منی پاکستان کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ایم کیو ایم نے گزشتہ تیس برسوں کے دوران کئی حکومتوں اور بلدیہ عظمیٰ کراچی میں برسر اقتدار رہنے کے باوجود کراچی کو غربت و افلاس اور دہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں کیا تو آئندہ بھی اس سے خیر کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ اس کے ارکان قتل و غارت، بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضوں کی شہرت رکھتے ہیں۔ کسی بھی حکومت میں شمولیت ایم کیو ایم کے ارکان کے ان ہی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہوتی ہے۔ جہانگیر ترین جیسی سیاسی شخصیت عمران خان اور تحریک انصاف کے ساتھ شاید ان کی مالی سرپرستی بھی کرنے کے قابل ہو۔ کچھ کمی پڑے تو قومی وسائل تحریک انصاف کی تحویل میں آنے کے بعد، ان سے مدد لی جاسکتی ہے۔ فی الحال ایم کیو ایم کی پالیسی یہ نظر آتی ہے کہ وزارت عظمیٰ کے نمبر گیم میں پھنسی ہوئی تحریک انصاف کی آئندہ حکومت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ سودے بازی کی جائے۔ وزارتوں کے علاوہ ایم کیو ایم کے اہداف میں مرکز نائن زیرو کی واپسی، دہشت گردی کے مقدمات سے چھٹکارا اور کراچی پر مکمل تسلط کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ تحریک انصاف کی متوقع حکومت اگر ایم کیو ایم کی یہ شرائط تسلیم کرلے تب بھی مقتدر و حساس ادارے کراچی کے امن و امان پر کسی سمجھوتے کی اجازت نہیں دیں گے۔ کس کی کہاں حکومت قائم ہوتی ہے اور کون اس سے کتنا فائدہ سمیٹ سکتا ہے؟ فی الحال اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ نمبر گیم کے علاوہ بھی عشق کے کئی امتحان اور باقی ہیں۔٭
Prev Post