آغا تراب کی تلاش کے لئے کھوجیوں کی خدمات لی گئیں

0

آغا تراب علی کے قتل کے واقعے کے ساتویں دن ان کے اہل کشتی کا بیڑا فرخ آباد کے گھاٹ پر اترا اور کسی غیر ضروری تاخیر کے بغیر اگلی منزل کے لئے روانہ ہو گیا۔ فتح گڈھ، اور پھر قنوج میں، اور اثنائے راہ بھی، انہوں نے آگے جانے والوں کے بارے میں پوچھا، لیکن کہیں کوئی اطمینان بخش جواب نہ مل سکا اور نہ کوئی خبر ہی ملی کہ وہ لوگ اب کہاں ہوں گے۔ انہوں نے گمان کرلیا کہ آغا صاحب مع سامان و نوکر اب تک رام پور پہنچ چکے ہوں گے۔ لیکن قائم گنج کے بازار میں انہیں کسی رامپوری رئیس کے ایک خادم کی خبر، بلکہ افواہ ملی کہ اس نے اپنے مالک کے ایک گھوڑے یا کسی اور سواری کو کوتل بھٹکتا ہوا پایا اور بالآخر اسے اسیر بھی کرلیا تھا۔ اب تو کشتی والوں میں کچھ سراسمیگی سی پھیلی۔ وہ کون رئیس اور کون خادم ہو سکتا تھا؟ ایسا تو نہیں کہ ہمارے آغا صاحب کا کوئی آدمی ہو؟ مگر پھر آغا صاحب کہاں تشریف لے گئے؟ گھوڑے کو بے سوار کیوں چھوڑ دیا؟
قافلۂ کشتی کے داروغہ شاہ نور خان نے بہت فکر کے بعد دل میں خیال کیا کہ شہر میں کوئی شاطر یا نشان قدم پہچاننے والا ہو تو اسے تفتیش کے لئے معین کیا جائے۔ ایسے لوگ اکثر علاقہ کاٹھیاواڑ کے، اور حبشی النسل ہوتے تھے۔ نسل کے اعتبار سے انہیں ’’سیدی‘‘ اور کام کے اعتبار سے انہیں ’’کھوجیا‘‘ کہا جاتا تھا اور وہ نشان قدم پہچاننے، مفرور کا پتہ لگانے اور لاپتہ اشیا کو ڈھونڈنے میں مہارت تامہ رکھتے تھے۔ یہ لوگ مدت دراز سے سلاطین اور پھر نوابین و رؤسائے گجرات کے یہاں یہی خدمت انجام دیتے آئے تھے۔ اگرچہ وہ شروع شروع میں سواحل افریقہ سے غلاموں کے طور پر گجرات و دکن لائے گئے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے قدر شناسوں کا حلقہ دہلی اور اودھ و روہیلکھنڈ تک پھیل گیا تھا۔ آپس میں وہ اب بھی سواحلی بولتے تھے، لیکن باہر کے لوگوں سے وہ کبھی کبھی گجراتی، لیکن زیادہ تر گجری یعنی ہندی میں بات کرتے تھے۔ ان کے بزرگوں نے کچھ مناجاتیں اور نعتیہ گیت تصنیف کرکے ان میں مقبول کئے تھے۔ ان منظومات کو ’’ذکر‘‘ کہا جاتا تھا۔ ان کی زبان سواحلی، گجراتی اور گجری کا آمیزہ تھی اور یہ اب بھی پہلے ہی جیسے جوش عقیدت اور درد مندی کے ساتھ گائے جاتے تھے۔ مثلاً ان کا ایک ’’ذکر‘‘ حسب ذیل تھا۔ اسے وہ ناچتے ہوئے گاتے تھے لیکن ان کا رقص کسی گجراتی رقص سے مشابہ نہ تھا:
کون امر لایا جگ موں
کس نے امر دیکھا جگ موں
امر نام اللہ کا جگ موں
امر نام لایونبی جگ موں
زمانۂ حال میں سیدیوں کی تعداد کم ہوتی جاتی تھی، لیکن پھر بھی اکاد کا ہر اہم شہر میں وہ مل جاتے تھے۔ قائم گنج نہیں تو فتح گڈھ فرخ آباد میں ان کا ملنا تقریباً یقینی تھا۔ لہٰذا شاہ نور خان نے قائم گنج میں تلاش شروع کرانے کے ساتھ ہی اپنے ایک ساتھی کو فتح گڈھ روانہ کردیا۔ بالآخر دونوں جگہ کامیابی ہوئی اور انہیں دو نشانیے سیدی اکرام اور سیدی منعم مل گئے، جنہوں نے فوراً فتح گڈھ کے کچھ اوپر یعنی بلہور سے تفتیش کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا مقصود رامپور کے مبینہ رئیس کے نوکر اور اس کے گھوڑے کا پتہ لگانا تھا۔ دوسرا، ظاہر ہے کہ آغا مرزا اتراب علی اور ان کے قافلے کے بارے میں مصدقہ خبر مہیا کرنا تھا اور ممکن ہو تو ان کا موجودہ مستقر معلوم کرنا تھا۔
سیدی اکرام تو فوراً فتح گڈھ کو روانہ ہوا۔ ادھر قائم گنج میں دو تین دن کی سعی و تلاش میں منعم نے اس ملازم مفرور کا پتہ نشان معلوم کرلیا کہ وہ ابھی قائم گنج ہی کے اطراف میں کہیں ہے۔ جب وہ اس تک پہنچنے میں کامیاب ہوا تو وہ ملازم ایک بازاری عورت کے گھر میں مفروروں کی طرح چھپا ہوا تھا۔ اس نے اقبال کیا کہ میرا نام منیر خان ہے اور اسے اپنے مالک کا ایک گھوڑا آوارہ بھٹکتا ہوا ملا تھا۔ مالک نے چونکہ اسے نوکری سے برطرف کر دیا تھا، اس لئے گھر واپس لوٹنے میں اسے شرمندگی اور ذلت محسوس ہوئی تھی۔ لیکن گھوڑے کو کوتل پھرتے دیکھ کر اس کے دل میں شک اور خوف پیدا ہوا تھا کہ میرے مالک کو کچھ ہوگیا ہے۔
’’اور اب… اور اب میرے لئے اور بھی مصیبت اور جوکھم ہے‘‘۔ وہ تقریباً روتا ہوا بولا۔ ’’میں کس منہ سے رامپور جاؤں، کس کو منہ دکھاؤں اور کس بوتے پر یہ خبر بد پہنچاؤں۔ مجبوراً میں چھپا انتظار کر رہا ہوں یہاں کہ کوئی سبھ سندیسہ مالک کے بارے میں ملے تو مجھے راہ واپسی کی شاید سوجھے۔ نہیں تو میں خود اپنی جان لے لوں گا، نہیں تو پہاڑوں میں جاکر بن باسی ہوجاؤں گا‘‘۔
’’پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر خبر گیری تمہارے مالک کی کریں۔ مار مرنے یا بن باس لینے کی بات بعد میں ہوگی‘‘۔ سیدی منعم نے جواب دیا۔ ’’تم اپن ساتھ چلو۔ اس وقت تو تمہارے آقا کی خبر تم سے زیادہ کسو کو۔ داروغہ حمایت کی سرائے میں تمھرے سنگی ساتھیوں کا ڈیرہ ہے‘‘۔
’’میں یوں تمہارے سنگ چلنے کا نہیں۔ اگر تم کشتی والوں کی طرف سے آئے ہو تو کچھ پتہ نشانی تو تمہارے پاس ہوگی، دکھاؤ‘‘۔
منعم نے اپنی پگڑی اتار کر اس کے نیچے سے ایک تحریر نکالی جو پیلے انگریزی کاغذ پر لکھی ہوئی تھی۔ داروغہ شاہ نور خان نے اپنی مہر کے اوپر ہندی میں راہداری لکھی تھی کہ حامل رقعہ ہمارا آدمی ہے اور نواب صاحب رامپور مدظلہ العالی کے کام پر مامور ہے۔ ایسی ہی تحریر سیدی اکرام کو بھی دی گئی تھی۔
منیر خان بجبر و اکراہ اور بہت بجھے ہوئے دل اور ڈوبی ہوئی امید کے ساتھ منعم کے ہمراہ چلا۔ داروغہ حمایت کی سرائے پر پہنچ کر شاہ نور خان کا سامنا ہوتے ہی وہ غش کھا کر گر پڑا۔ شاہ نور خان اور اس کے ساتھیوں نے شک کیا کہ یہ سب بناوٹ ہے، لیکن جب وہ دو گھڑی کے بعد بدن میں چٹکیاں کاٹنے اور منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھڑکاؤ کے باوجود ہوش میں نہ آیا تو بید سیانے طلب کئے گئے۔ انہوں نے تجویز کیا کہ دل پر اثر ہے۔ مختلف دواؤں اور جھاڑ پھونک کے بعد منیر خان کو ہوش آیا لیکن اس کا چہرہ زرد تھا۔ آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور رخسار پچکے ہوئے تھے۔ گویا اس کے دانت ٹوٹ گئے ہوں۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More