جب عباسی حکمرانوں کا نظام حکومت کے تاراج ہونے کا اندیشہ یقین سے بدل گیا، تب ہارون الرشید نے قاضی ابویوسفؒ کو عام قاضی کے عہدے سے ترقی دے کر قاضی القضاۃ (لارڈ چیف جسٹس) کا مقام دے دیا۔ گویا محکمہ عدلیہ کی مطلق العنان وزارت پر قاضی ابو یوسفؒ براجمان ہوگئے۔
خود امام ابویوسفؒ کا ارشاد ہے: ’’پھر مجھے تمام ممالک عروسہ کی قضا کی ذمہ داری سونپ دی۔‘‘
مگر مخالفین اور حاسدین سے قاضی ابو یوسفؒ کی یہ وسیع تر ذمہ داریاں، اختیار اور عظمت نہ دیکھی جا سکی اور ہارون رشید سے طرح طرح کی شکایات شروع کریں اور کہنے لگے:
’’ابو یوسف تو محض ایک عالم اور فقیہہ تھے، آپ نے ان کی حیثیت سے کہیں زیادہ ان کو بلند کر دیا اور غیر معمولی اعزاز و اکرام بخش دیا تو یہ مرتبہ آپ کے ہاں انہوں نے کس وجہ سے حاصل کیا؟‘‘
ایسے ہی شکایت کرنے والوں سے ایک روز ہارون الرشید نے (جو خود بھی بہت بڑا فقیہہ، اچھا عالم اور نقاد تھا) جواب میں کہا:
اس لیے کہ مجھے قاضی ابویوسفؒ کی معرفت حاصل ہے، ازروئے تجربہ میں ان کی قدرو منزلت بڑھانے پر مجبور ہوں، خدا کی قسم! ابواب علم میں سے کوئی ایسا باب نہیں، جس میں، میں نے ابویوسفؒ کا امتحان نہ لیا ہو، مگر میں نے ہمیشہ اور ہر موقعہ پر انہیں کامل اور یکتا پایا، وہ ہمارے ساتھ حدیث کے حلقوں میں جاتے تھے، ہم لکھ لیتے تھے، وہ نہیں لکھتے تھے، پھر جب ہم مجلس سے اٹھتے تو اصحاب حدیث انہیں گھیر لیتے، وہ اپنے لکھے ہوئے نوٹوں کی تصحیح ان کے حافظہ سے کرتے اور فقہ میں تو انہیں وہ مرتبہ حاصل ہے، جس پر آج تک کوئی آدمی نہیں پہنچ سکا، بڑے بڑے لوگ ان کے سامنے پہنچ کر چھوٹے اور کم مایہ نظر آنے لگتے تھے، ان کے پاس بڑے بڑے فقیہہ آتے تھے، جب کہ وہ عام مجلس میں بیھٹے ہوتے تو اس موقعہ پر نہ ان کے پاس کوئی نوٹ بک ہوتی اور نہ کوئی کتاب، وہ ہمارے ساتھ شریک مجلس رہتے اور ان آنے والے علماء اور فقہاء سے سوال کرتے کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ وہ جواب دیتے فلاں فلاں باب کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں۔ ابو یوسفؒ وہیں بیٹھے بیٹھے برجستہ ان کے ہر سوال کا جواب دیتے اور چٹکی بجاتے ہر مشکل حل کردیتے۔ یہ وہ خصوصیت تھی، جس سے ان کے ہم عصر علماء عاجز تھے، پھر ان سب باتوں کے علاوہ وہ استقامت فی المذہب اور صیانت فی الدین کا بھی نمونہ کامل تھے… اس کے بعد ہارون الرشید نے کہا۔
’’لائو اگر ابو یوسفؒ کا سا کوئی آدمی لا سکتے ہو…‘‘
Prev Post
Next Post