حضرت عروہ بن زبیرؒ نماز ہی میں نفس کی راحت، آنکھوں کی ٹھنڈک محسوس کرتے تھے اور نماز کی حالت میں ایسا محسوس کرتے کہ وہ دنیا میں رہ کر بھی جنت کی زمین پر ہیں۔
اسی وجہ سے وہ بہت اچھی نماز پڑتھے تھے اور نماز کے تمام ارکان اور شعائر کی ادائیگی مکمل یقین کے ساتھ کرتے تھے اور انتہائی لمبی لمبی نمازیں پڑھتے تھے۔
ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے ایک آدمی کو تیز تیز نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ان کو بلا کر کہنے لگے:’’بیٹے! کیا تمہیں اپنے رب سے کوئی چیز مانگنے کی ضرورت نہیں ہے؟‘‘
پھر خود ہی کہنے لگے: ’’خدا کی قسم! میں تو اپنے رب سے اپنی نماز میں ہر چیز مانگتا ہوں یہاں تک کہ نمک بھی۔‘‘
سخاوت:
حضرت عروہ بن زبیرؒ بہت زیادہ کھلے ہاتھ والے تھے، ان کی سخاوت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ میں ان کا میٹھے پانی، سایہ دار، پھل دار درختوں اور عمدہ کھجوروں والا ایک بہت بڑا باغ تھا اور وہ سال بھر باڑھ کے ذریعے اس کی حفاظت کرتے تھے، تاکہ چلنے والے اور بچے درختوں اور پھلوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ لیکن جب پھلوں کے پکنے کا موسم آتا اور دیکھنے والوں کے دل ان پھلوں کے کھانے کی طرف مائل ہوتے، تو یہ اس حفاظتی باڑھ کو مختلف اطراف سے ہٹا دیتے، تا کہ لوگوں کے لئے داخل ہونا آسان ہو۔ پھر تو ہر آنے جانے والا اس باغ میں داخل ہوتا اور اس باغ کے پھلوں میں سے جس کو بھی لذیذ سمجھتا کھالیتا اور جتنا چاہتا اپنے ساتھ گھر لے جاتا اور خود یہ حضرت عروہ بن زبیرؒ جب بھی اپنے اس باغ میں داخل ہوتے تو حق
تعالیٰ کا یہ فرمان تلاوت کرتے جاتے:
ترجمہ : ’’تو تو جس وقت اپنے باغ میں پہنچا تھا تو تو نے یوں کیوں نہ کہا کہ جوخدا کو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے (اور) بغیر خدا کی مدد کے (کسی میں) کوئی قوت نہیں (جب تک خدا تعالیٰ چاہے گا یہ باغ قائم رہے گا اور جب چاہے گا ویران ہوجائے گا)‘‘
حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص کوئی چیز دیکھے اور وہ اس کو پسند آئے تو اگر اس نے یہ کلمہ کہہ لیا ’’ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ‘‘ تو اس کو کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی (یعنی وہ پسندیدہ محبوب چیز محفوظ رہے گی) اور بعض روایات میں ہے کہ جس نے کسی محبوب و پسندیدہ چیز کو دیکھ کر یہ کلمہ پڑھ لیا تو اس کو نظربد نہ لگے گی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post