حسن امام صدیقی
چارمارچ 1971ء کو شہر چٹاگانگ اور شمالی بنگال کا مشہور شہر ’’کھلنا‘‘ پر حملہ کر کے ہزاروں محب وطن پاکستانیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ’’جیسور‘‘ سے کھلنا جانے والی ٹرین پر حملہ کیا گیا، بڑی تعداد میں محب وطن پاکستانیوں کو شہید کیا گیا۔ محب وطن پاکستانیوں کے شہروںِ، فوجدار ہاٹ، ایشرڈی، پاکسی، کشتیا، راج باڑی، جیسر، ناٹور، پاربتی پور، لال منیر ہاٹ، رنگ پور، جمالی پور، سراج گنج گھاٹ، عبدل پور، سانتا ہار، ناٹور، پبنہ، بوگرہ، ٹھاکر گائوں، ہلی، دیناج پور، بھیڑا مارا، چپئی نواب گنج، جئے رام گاپور، کھلنا، گائے بندھا، راجشاہی، سیدپور، نیلفا ماری، میمن سنگھ، پہاڑنلی، چندرگونا، کرنافلی، پیپر ملز، کپتائی کالونی، جھائوتلہ، حالی شہر، سیدپور اور چاند پور کے زیریں علاقوں کے علاوہ ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے نواحی علاقے شامل تھے۔ کو کرفیو لگا کر گھروں کو آگ لگا کر تباہ کیا گیا اور ہزاروں کی تعداد میں محب وطن پاکستانیوں کو شہید کیا گیا۔ 5 مارچ 1971ء پورا مشرقی پاکستان مفلوج ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان اور بیرون ممالک کے درمیان ٹیلی مواصلات، ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کا رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ 6 مارچ 1971ء ’’چہاترو لیگ‘‘ نے سینٹرل جیل ڈھاکہ پر حملہ کر کے قیدیوں کو چھڑا لیا۔ گورنمنٹ سائنس لیبارٹری ڈھاکہ پولٹیک نکس انسٹی ٹیوٹ اور دیگر اداروں کا جہاں بھاری تعداد میں بم بنانے کا کیمیکل تھا لوٹ لیا گیا۔
7 مارچ 1971ء کو شیخ مجیب الرحمن نے متوازی گورنمنٹ بنا کر اعلان کیا کہ روزانہ گھروں میں کالا پرچم آویزاں کیا جائے، ریلوے ورکر اور پورٹ ورکر پاکستانی افواج کی آمدورفت کے لیے تعاون نہیں کریں گے۔ 8 مارچ کو پورے مشرقی پاکستان میں محب وطن پاکستانیوں کے پاس موجود لائسنس یافتہ اسلحہ زبردستی چھین لیا گیا۔ عوامی لیگ نے 9 مارچ 1971ء کو پورے مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ ’’چیک پوسٹ‘‘ قائم کر دی گئیں۔ جہاں چیکنگ کے دوران روپیہ اور قیمتی سامان بنگلہ دیش کے نام پر چھین لیا گیا۔
10 مارچ 1971ء کو ’’کومیلا‘‘ میں چائے کے باغات پر حملہ کیا گیا اور پاکستانیوں کو شہید کر دیا گیا۔ 12/11 مارچ 1971ء کو ’’بارسیال‘‘، ’’بوگرہ‘‘، ’’کومیلا‘‘ و دیگر علاقوں میں ’’جیل‘‘ کو توڑ کر قیدیوں کو رہا کر کے ’’مکتی باہنی‘‘ میں شامل کر لیا گیا۔ ’’لبریشن فرنٹ‘‘ نے ہاتھ اور سائیکلو اسٹائل کے ذریعے تحریر کئے گئے اشتعال انگیز، پمفلٹ تقسیم کرنا شروع کر دیئے۔14 مارچ 1971ء کو عوامی لیگ نے اپنے عہدہ داروں کو ڈپٹی کمشنر اور سب ڈویژنل آفیسر کے اختیارات دیئے۔ ان کی ہدایت پر محکمہ کسٹم نے ’’اسپیشل اکائونٹ‘‘، ’’ایسٹرن بینکنگ کارپوریشن لمیٹڈ‘‘ اور ’’ایسٹرن مرکنٹائل بینک لمیٹڈ‘‘ میں کھول دیا، جو کہ پرائیویٹ ریجنل بینک تھا۔ سات کھیرا (Satkhira) سلیٹ، بیلی، درسنا، بیتاپول، بیرول، داھارام، مغل باٹ، کوڑی گرام، کشور گنج، دیناج پور، اگرتلہ، بارڈ پوسٹ کے ذریعے بڑی تعداد میں ہندوستانی فوجی اسلحہ عوامی لیگ کے کارکنوں تک پہنچا رہے تھے۔ ایسٹ پاکستان سول سروس اور سول سروس آف پاکستان کے بنگالی اراکین نے عوامی لیگ کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
15 مارچ 1971ء کو جنرل یحییٰ خان و دیگر جنرلوں کے ہمراہ مجیب الرحمن سے مذاکرات کے لیے ڈھاکہ پہنچے۔ مذاکرات اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہا۔ ادھر مشرقی پاکستان کے حالات تباہ کن ہوتے جارہے تھے، بربریت کا دور دورہ تھا، ہندوستانی فوج نے مکتی باہنی، لال باہنی کے روپ میں محب وطن پاکستانیوں اور پاکستانی افواج پر ’’گوریلا‘‘ حملے کرنا شروع کر دیئے۔ ایسٹ پاکستان رائفلز (E.P.R) اور ایسٹ بنگال رجمنٹ (E.P.R) کے باغی جوان بھرپور قوت کے ساتھ اس پر عمل کررہے تھے۔ ایسٹ پاکستان رائفلز (E.P.R) کے باغی میجر رفیق السلام نے ایسٹ پاکستان رائفلز (E.P.R) اور ایسٹ بنگال رجمنٹ (E.B.R) کے باغیوں کو منظم کر کے ایک بڑے اور بھرپور حملے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ انہوں نے کیپٹن ہارون، 17 ونگ (E.P.R) کو ’’کپتائی‘‘ اور اس سے ملحقہ علاقوں کا آپریشنل انچارج مقرر کر دیا۔ چٹاگانگ میں کیپٹن اولی (Oli)، کیپٹن خلیق الزماں، لیفٹیننٹ شمشیر مبین، میجر ضیاء الرحمن، لیفٹیننٹ کرنل ایم۔آر۔ چوہدری، کرنل قادر کو مزید عسکری اداروں کے جوانوں اور افسروں کو منظم کرنے کی ذمہ داری دے دی۔ ابتدا میں چٹاگانگ/ڈھاکہ کی اہم تنصیبات، ایئرپورٹ، نیول بیس، سی پورٹ، ٹیلی فون ایکسچینج، ریڈیو پاکستان، ٹیلی ویژن، آرمی بیرکس، B.D.R/E.P.R سیکٹر کمانڈر بیس وغیرہ پر حملے ہوئے۔
22 مارچ 1971ء کو جنرل یحییٰ خان نے قومی اسمبلی کا ہونے والا اجلاس ملتوی کر کے 2 اپریل 1971ء کو منعقد کرنے کا اعلان کر دیا، تاکہ شیخ مجیب الرحمن سے ہونے والے مذاکرات کو حتمی شکل دینے کے لیے کچھ مہلت مل جائے۔ اس اعلان کے بعد عوامی لیگ کے عسکری ونگ اور دیگر تربیت یافتہ فوجی، عسکری اور نیم عسکری اداروں کے جوانوں نے پورے مشرقی پاکستان میں قیامت ڈھا دی۔ تشدد اور خونریزی کے سلسلے کو تیز کر دیا۔ گویا آندھی طوفان برپا ہو گیا تھا۔ سویلین آباد کاروں کے ساتھ ساتھ پاک آرمی اور E.P.R اور E.B.R کے غیر بنگالی افسران کی فیملیوں کی بے حرمتی اور شہید کرنا شروع کر دیا۔ عورتوں کو برہنہ کر کے شہروں میں گھمایا گیا اور انہیں شہیدوں کا خون پلایا گیا۔ نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر کے کلکتہ کے مشہور علاقے ’’سونار گاچھی‘‘ میں فروخت کر دیا گیا۔ جھم جھم پور کالونی، رام نگر کالونی، مبارک گنج، کالی گنج، کوٹ چاند پور، رنگا ماٹی، حافظ جوٹ ملز، اصفحانی جوٹ ملز، امین جوٹ ملز، کریسنٹ جوٹ ملز، اسٹار جوٹ ملز، پیپل جوٹ ملز، میرپور، چورکائی، پھول باڑی، ہلی (Hili) و دیگر علاقوں میں مقیم غیر بنگالیوں کو شہید کر دیا گیا۔ ان کے گھروں کو آگ لگا کر، مال و اسباب کو لوٹ لیا گیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہورہا تھا جب شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات اور گفت و شنید ہورہی تھی۔ حالات سول انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہو گئے۔ ادھر باغی سپاہی 26 مارچ 1971ء کی صبح ایک بڑے حملے کی تیاری کر چکے تھے۔ 24 مارچ 1971ء کو میجر جنرل خادم حسین راجہ۔ جی۔ اوسی 14 ڈی ویژن اور میجر جنرل اے او۔ میٹھا۔ چٹاگانگ پہنچ کر لیفٹیننٹ کرنل فاطمی کمانڈنگ آفیسر۔20 بلوچ رجمنٹ اور سب زونل مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، چٹاگانگ ریجن، بریگیڈیئر انصاری اور دیگر فوجی افسران سے معاملات کی سنگینی پر میٹنگ کی اور واپس ڈھاکہ چلے گئے۔
جنرل یحییٰ خان 25 مارچ کی شام مذاکرات کی ناکامی کے بعد کراچی روانہ ہو گئے۔ بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو بھی 26 مارچ 1971ء کو جو کہ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل ڈھاکہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، کراچی روانہ ہو گئے۔ 25 مارچ 1971ء کی رات کو ملک دشمنوں کے حملہ کرنے سے چند گھنٹہ قبل پاکستانی افواج اپنی بیرکوں سے نکل کر باغیوں کا صفایا کرنا شروع کر دیا اور امن و امان بحالی کے اقدامات کرنے شروع کر دیئے۔ پورے مشرقی پاکستان میں قدم قدم پر شہادتیں پیش کرتے ہوئے دوبارہ پاکستان کی حاکمیت قائم کی، پاکستانی پرچم بلند کیا۔ عوامی لیگ کے کارکن، مکتی باہنی و دیگر افراد بڑی تعداد میں فرار ہو کر بھارت پہنچ گئے۔ جہاں انہیں ہر قسم کی عسکری تربیت دینی شروع کر دی گئی۔
مشرقی پاکستان میں E.P.R اور E.B.R اور پولیس کی بغاوت کے بعد عسکری تقرری کی کمی ہو گئی۔ اس کو پورا کرنے کے لیے ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورس (EPCAF) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ غیر بنگالی اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طالب علموں نے مادر وطن کے دفاع کے لیے پاکستانی آرمی کی آواز پر ’’لبیک‘‘ کہتے ہوئے چند ہفتوں کی ٹریننگ کے بعد بڑی تعداد میں دشمنوں اور باغیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ملک پر قربان ہو گئے۔ یہ جنگ جو اپنی ہی سرزمین پر اپنوں اور غیروں دونوں سے لڑی گئی۔ اس میں شامل ایشرڈی کے محمد شمیم انور اور محمد اسرارالحق راجشاہی کے محاذ پر دشمنوں کے سامنے سینہ سپر تھے۔ نومبر 1971ء کے آخری دنوںمیں ان کا ایک خط بھی محاذ سے موصول ہوا۔ وہ شہادت کے جذبہ سے سرشار تھے۔ ملک کے تحفظ اور بقا کے لیے ہمہ وقت تیار تھے۔ سات سے دس دنوں تک بوٹ اور وردی تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ ارشد عالم، محمد نسیم، عین الحق، خواجہ ذوالقرنین، جاوید فاروقی و دیگر بھی قوم پر قربان ہونے کے لیے تیار تھے۔
باغی کرنل عثمانی کو عوامی لیگ نے کمانڈر انچیف مقرر کر دیا تھا۔ کرنل عثمانی نے پورے مشرقی پاکستان کو دفاعی نقطہ کے لحاظ سے 11 سیکٹروں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سیکٹر1، کے کمانڈر میجر رفیق السلام، سیکٹر 2 اور "K” فورس کے کمانڈر میجر جنرل خالد مشرف، سیکٹر 3 اور "S” فورس کے کمانڈر میجر جنرل کے ایم شفیع اللہ، سیکٹر 4، کے کمانڈر میجر جنرل سی آر۔ دتہ، سیکٹر 5، کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل میر شوکت علی، سیکٹر 6، ایئروائس مارشل لیفٹیننٹ ایم۔کے۔ بشر، سیکٹر۔ 7 کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل قاضی نورالزماں، سیکٹر۔8 کے میجر جنرل ایم۔اے۔ منظور، سیکٹر 9، کے کمانڈر میجر ایم۔اے جلیل اور سیکٹر 10، میجر ضیاء الدین، سیکٹر 11، کے کمانڈر کرنل ایم ابو طاہر تھے۔ یہ افسران ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ پاکستان رائفلز کے باغی تھے۔ بھارت اور مکتی باہنی اور باغی سپاہیوں نے بھرپور حملہ کر دیا، جس کا پاکستانی افواج نے بھرپور مقابلہ کیا۔ بین الاقوامی سازش اور اپنوں کی کوتاہی کے سبب 16 دسمبر 1971ء کو غروب ڈھاکہ ہو گیا۔ الشمس اور البدر کے رضاکاروں نے جس میں محب وطن بنگالی اور بہاری شامل تھے، بڑی قربانیاں دیں اور وہ دفاع پاکستان میں قربان ہو گئے۔
ہمارے سیاسی قائدین مثبت انداز میں بہتر طور پر اپنا نقد و نظر پیش نہیں کر سکے، جس کے نتیجے میں یہ عظیم سانحہ رونما ہوا۔ خودغرضی نمایاں رہی۔ ’’اِدھر ہم اُدھر تم‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ بدنصیب رہے وہ جنہوں نے تحفظ پاکستان میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ مادر وطن پر نچھاور ہو گئے۔ ہمارے وہ فوجی بھائی جنہوں نے مشرقی پاکستان کے دفاع میں حصہ لیا، وہ اس کے گواہ ہیں۔ وہ بے چارے محب وطن پاکستانی آج بھی پاکستان آنے کے انتظار میں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان اور مسلح افواج کے سربراہ سے اپیل ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں، انہیں پاکستان لاکر حب الوطنی کے جذبہ کو مزید بیدار اور ابھاریں۔ خدا پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
٭٭٭٭٭