تابعین کے ایمان افروز واقعات

0

آزمائش میں ثابت قدمی:
ولید بن عبدالملک کے دور خلافت کے دوران ایک سال حق تعالیٰ نے حضرت عروہ بن زبیرؒ کو ایک ایسے امتحان میں ڈال دیا کہ جس میں وہی آدمی ثابت قدم رہ سکتا ہے، جس کا دل ایمان اور یقین کی دولت سے آباد ہو۔ ہوا یوں کہ:
امیر المؤمنین (ولید بن عبدالملک) نے حضرت عروہ بن زبیرؒ کو دمشق آنے کی دعوت دی، تاکہ ملاقات اور زیارت ہوسکے۔ چنانچہ انہوں نے دعوت قبول کرلی اور اپنے ساتھ اپنے بڑے بیٹے کو لے کر دمشق پہنچ گئے۔
جب امیر المؤمنین کے پاس پہنچے تو انہوں نے بڑا شاندار استقبال کیا اور شاہی مہمان کی طرح ان کی عزت کی گئی، پھر اس کے بعد خدا کی مرضی اور مشیت سے ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور واقعی یہ کہاوت دیکھنے کو ملی:
’’ہوا کشتی کی مخالف سمت چلنے لگی۔‘‘
واقعہ اس طرح پیش آیا کہ حضرت عروہؒ کا بیٹا ولید بن عبد الملک کے اصطبل کی طرف گیا (جہاں گھوڑے اور دوسرے قیمتی جانور رکھے گئے تھے) تاکہ کسی عمدہ گھوڑے کو سواری کیلئے منتخب کرلے، وہاں اصطبل میں ان کو ایک گھوڑے نے ایسی لات ماری کہ وہ ان کیلئے جان لیوا ثابت ہوئی اور ابھی غم زدہ والد نے بیٹے کی قبر کی مٹی سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ان کے ایک پاؤں میں ایک خطرناک پھوڑا نکل آیا، جس نے ان کے پاؤں کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا، ان کی پنڈلی سوج گئی اور بہت تیزی سے یہ ورم بڑھتا گیا اور تکلیف میں اضافہ ہوتا گیا۔
امیر المؤمنین نے ہر طرف سے اپنے مہمان کے علاج کیلئے طبیبوں اور حکیموں کو بلالیا اور ان کو تاکید کی کہ جس طرح بھی ممکن ہو، ان کا علاج کیا جائے۔ لیکن کافی علاج معالجے اور سوچ بچار کے بعد تمام حکیم اور طبیب اس بات پر متفق ہوگئے کہ حضرت عروہؒ کی ٹانگ کے کاٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ قبل اس کے کہ یہ ورم پورے بدن میں پھیل جائے اور ان کی موت کا سبب بن جائے، ان کی مفلوج ٹانگ کاٹنا ہی اس کا علاج ہے۔
حضرت عروہؒ نے بھی حکیموں کی اس تجویز سے اتفاق کے علاوہ کوئی راستہ نہیں پایا، جب جراح ان کی ٹانگ کاٹنے کے لئے اپنے تمام آلات لے آئے، گوشت کے کاٹنے کی قینچیاں اور ہڈی کو الگ کرنے کیلئے آرے وغیرہ، تو انہوں نے حضرت عروہؒ سے کہا: ہمارا ارادہ ہے کہ آپ کو ایک گھونٹ شراب پلادیں تاکہ پاؤں کاٹنے کی تکلیف آپ کو محسوس نہ ہو۔
حضرت عروہؒ کہنے لگے: ہرگز نہیں! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا، میں حرام چیز سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ میرے لئے عافیت کا سبب بنے گی۔
پھر انہوں نے کہا کہ چلیں شراب کے علاوہ کوئی اور نشہ آور چیز پلا دیتے ہیں۔ تو حضرت عروہؒ نے کہا:
میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر الگ کیا جائے اور مجھے اس کی تکلیف نہ ہو، بلکہ آپ بغیر نشہ کے میری ٹانگ کاٹیں تاکہ مجھے درد ہو اور خدا کی طرف سے اس پر مجھے اجرو ثواب ملے۔
چنانچہ جب طبیبوں نے حضرت عروہؒ کی ٹانگ کاٹنے کا ارادہ کیا تو مضبوط اور طاقت ور مردوں کی ایک جماعت آگے بڑھی۔
حضرت عروہؒ نے پوچھا، کیا بات ہے؟ یہ کون لوگ ہیں؟ کس لئے آرہے ہیں؟
تو ان کو بتایا گیا کہ ان لوگوں کو اس لئے بلایا گیا ہے کہ یہ آپ کو پکڑ کر رکھیںِ، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زیادہ درد اور تکلیف کی وجہ سے آپ اپنی ٹانگ کھینچ لیں اور اس کی وجہ سے آپ کو مزید کوئی نقصان اٹھانا پڑے۔
یہ سن کر حضرت عروہؒ نے کہا:
ان لوگوں کو واپس کردو، مجھے ان کی ضرورت نہیں، مجھے امید ہے کہ ذکر اور تسبیح ہی میرے لئے کافی ہے اور جب تک میں ذکر وتسبیح میں مشغول رہوں گا ایسی کوئی نوبت نہیں آئے گی کہ مجھے پکڑنے کی ضرورت پڑ جائے۔
پھر طبیب نے قینچی سے گوشت کاٹنا شروع کیا، گوشت کاٹ کر ہڈی تک پہنچ گئے اور ہڈی پر آری رکھ کر چلانے لگے اور ہڈی کو کاٹتے رہے، جب کہ حضرت عروہؒ مسلسل کلمہ طیبہ اور تکبیر کہتے رہے، جراح آری سے ہڈی کاٹتے رہے۔ حضرت عروہؒ تکبیر و تہلیل کہتے رہے، یہاں تک کہ پنڈلی کٹ کر الگ ہوگئی۔
پھر لوہے کی ایک کڑھائی میں تیل کو ابالا گیا اور حضرت عروہؒ کی زخمی ٹانگ کو اس میں ڈبو دیا گیا، تاکہ وہ ابلتا ہوا خون رک جائے اور زخم کو داغ لگے۔ اس کے بعد حضرت عروہؒ کافی دیر بے ہوش رہے اور اس دن بے ہوشی کی وجہ سے وہ قرآن مجید کا اتنا حصہ تلاوت نہ کرسکے جو ان کے روزانہ کی ترتیب تھی (یعنی ایک منزل)۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More