حق تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمائش میں مبتلا بھی کرتا ہے، خطائوں پر گرفت بھی کرتا ہے اور بدعملی کی ایسی سزا دیتا ہے کہ افراد اور قومیں عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی گزشتہ ستر برس سے یہی ہو رہا ہے۔ نہ ہمارے اعمال سدھرتے ہیں، نہ آبرومندانہ جادہ و منزل ہمارا نصیب بنتے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک ایسا ہی سانحہ ہے۔ پاکستان بندوق کے زور پر نہیں بنا تھا، بلکہ خدا کے ایک نیک بندے محمد علی جناح کی کاوش اور برصغیر کے مسلمانوں کا اس پر اعتماد اس کا سبب تھا۔ مگر اقتدار کے آرزومندوں نے اسے دو لخت کر دیا۔ شیخ مجیب الرحمن غدار قرار پائے۔ کیا وہ ہمیشہ سے ایسے ہی تھے یا ہم نے انہیں دھکیل کر کفر کی گود میں ڈال دیا؟ یہ ایسا سوال ہے جس پر محققین کو غور کر کے اصل صورت حال اجاگر کرنی چاہئے۔ قائد اعظم کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس ملک کے اختیار سے سیاست دانوں کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا۔ ووٹ کے ذریعے بننے والے ملک سے ووٹ کی قوت کو جرم قرار دے دیا گیا۔ 56ء تک وطن عزیز سرزمین بے آئین رہا۔ 56ء میں دستور منظور ہوا۔ اس کے ذریعے 58ء میں عام انتخابات ہونا تھے کہ ایوب خان نازل ہوگئے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 64ء میں ایوب خان نے صدارتی انتخاب کا اعلان کیا اور مادر ملت ان کے مقابل آئیں تو شیخ مجیب الرحمن مادر ملت کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے لئے ڈھاکہ سے راولپنڈی آئے تھے۔ 70ء کے انتخابات ون مین ون ووٹ کی بنیاد پر ہوئے تو مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ ہونے کے باعث قومی اسمبلی میں ان کی نشستیں زیادہ تھیں، مگر ہمیں یہ گوارا نہ ہوا کہ اقتدار بنگالیوں کو منتقل کیا جائے۔ ہم نے اُدھر تم اِدھر ہم کا نعرہ لگایا۔ پھر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مغربی پاکستان کو پورا ملک قرار دے کر بھٹو صاحب برسر اقتدار آئے۔ یہ ان کا جاگیردارانہ مزاج تھا یا اپنے رویے کو چھپانے کا عمل کہ انہوں نے ملک کو لاڑکانہ کی جاگیر کی طرح چلانے کی کوشش کی اور ایک جمہوری حکمران کے بجائے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر صدر پاکستان بنے۔ غیروں اور اپنوں کے ساتھ کھیت مزدور کا سا سلوک کیا۔ محترم مجیب الرحمن شامی، محترم الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی تو ان کے نقاد تھے، مگر حسین نقی، چوہدری ارشاد، افتخار تاری، محترم حنیف رامے، مصطفی کھر جو اپنے تھے، ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو دشمن کے ساتھ ہوا۔
خدا جانے بھٹو جیسا پڑھا لکھا شخص یہ سمجھنے سے کیوں قاصر رہا کہ انسان کی حکومت، اقتدار و اختیار عارضی چیز ہے، سدا بادشاہی خدا کی ہے اور وہ قادر مطلق چاہے تو دنیا میں حساب کتاب برابر کر دیتا ہے۔ بھٹو صاحب اپنے غرور و تکبر میں جو چاہے کرتے چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ جنرل مجید ملک، ضیاء الحق سے سینئر تھے، مگر ان کی ایک ’’خرابی‘‘ نے انہیں آرمی کا چیف نہ بننے دیا کہ وہ مقامی تھے، ان کا علاقہ تھا، برادری تھی۔ بعد میں وہ اپنے علاقے سے ایم این اے بھی منتخب ہوئے، جبکہ ضیاء الحق مہاجر تھے، ان کا کوئی قبیلہ برادری نہ تھی، مگر بھٹو یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ فوج بذات خود ایک مضبوط قبیلہ ہے اور اپنے چیف کے حکم پر جان دینے اور جان لینے کے سوا کچھ نہیں جانتی۔ سو جب پاکستان قومی اتحاد اور بھٹو کے درمیان مذاکرات ناکام ہو گئے یا فوج کی مدت انتظار ختم ہوگئی تو دو طرفہ گرفتاریاں ہوئیں۔ کہا گیا کہ فوج نے سیاستدانوں کو تحویل میں لے لیا ہے۔ جب سیاستدان رہا ہوئے اور انتخاب کی تاریخ کا اعلان ہوا تو بھٹو صاحب نے جس طرح انتخابی مہم چلائی، اس نے سب کو یہ باور کرا دیا کہ دو میں کسی ایک کو رہنا ہے۔ سو پھر جو کچھ ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مگر یہ صرف بھٹو کے ساتھ نہیں ہوا، بلکہ پاکستان کو دولخت کرنے کا کوئی ذمہ دار مکافات عمل سے بچ نہیں سکا۔ شیخ مجیب الرحمن اپنوں کے ہاتھوں مارا گیا، اندرا گاندھی اپنے محافظوں کی گولیوں کا شکار ہوئی اور بھٹو صاحب بھی سزا پا گئے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس رات بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی، اس رات میں اور ایک صحافی دوست ضمیر نفس گرفتار ہوگئے اور ہمیں جہاں رکھا گیا، وہاں وائر لیس پر جیل میں ہونے والی ساری کارروائی سنی جا سکتی تھی۔
بھٹو صاحب کو سیل سے نکال لیا گیا ہے… بے ہوش ہو گئے ہیں… اسٹیچر پر ڈالو!… ہوش میں آ گئے ہیں… وغیرہ وغیرہ، اسی شنیدہ کو ہی دیدہ بنا کر کالم لکھا ’’میں نے بھٹو کو پھانسی چڑھتے دکیکھا‘‘ رہے نام اﷲ کا پاکستان کو نقصان پہنچانے والے تینوں خاندان بے نام و نشان ہوگئے۔
اس کھیل میں تعیینِ مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں میں پیادہ
بے چارہ پیادہ تو ہے مہرئہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ شاطر کا ارادہ
Next Post