غارثور کے رازدان

0

ابو عمرو عامرؓ بن فہیرہ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے اخیافی بھائی طفیل کے غلام تھے۔ وہ ظاہری صورت کے لحاظ سے ایک سیاہ فام حبشی تھے، لیکن ان کی جبلت کو مبداء فیض نے ایسے نورانی سانچے میں ڈھالا تھا کہ مکہ کے ظلمت کدے میں جونہی رسول عربیؐ نے شمع توحید روشن کی، وہ اس شمع کے پروانے بن گئے اور حضور اقدسؐ کے دارِ ارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے ہی دولت ایمان سے بہرہ یاب ہو گئے۔
مشرکین بھلا یہ کیونکر گوارا کر سکتے تھے کہ ایک بے کس غلام ان کے سامنے توحید کا دم بھرے۔ ان کے قہر و غضب کا طوفان پوری قوت سے حضرت عامرؓ پر پھٹ پڑا۔ کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو ان بد بختوں نے اس مردِ حق پر نہ توڑا ہو۔ کبھی انہیں بے دردی سے زد و کوب کرتے تھے، کبھی گرم ریت اور کانٹوں پر گھسیٹتے تھے۔ سیدنا عامرؓ اگرچہ نحیف الجثہ تھے، لیکن ان کے سینے میں فولاد کا دل تھا۔ انہوں نے نہایت ثابت قدمی اور استقلال کے ساتھ تمام مصیبتیں برداشت کیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے قدم جادۂ حق سے نہ ڈگمگائے۔
اتفاق سے ایک دن سیدنا حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں اس حال میں دیکھ لیا کہ کفار انہیں کانٹے چبھو رہے تھے اور ان کی ڈاڑھی پکڑا کر طمانچے مار رہے تھے۔ سیدنا صدیق اکبرؓ سے ان کی مظلومی دیکھی نہ گئی اور انہوں نے اسی وقت انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ اب سیدنا عامرؓ تھے اور آستانۂ نبویؐ تھا۔ دن رات اسی دھن میں رہتے تھے کہ خدا اور اس کے رسولؐ کی خوش نودی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے پائے۔
ہجرت کے موقع پر رحمت دو عالمؐ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ غار ثور میں رونق افروز ہوئے تو صدیق اکبرؓ کے اہل خانہ کے علاوہ حضرت عامرؓ بن فہیرہ بھی اس پر خطر راز سے آگاہ تھے۔ گویا سرور دو عالمؐ اور صدیق اکبرؓ کے نزدیک وہ ایک ایسی شخصیت تھے، جن پر ہر حال میں مکمل اعتماد کیا جا سکتا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عامرؓ بن فہیرہ دن بھر (حضرت ابوبکر صدیقؓکی) بکریاں چَراتے تھے اور شام کو انہیں غار کے منہ پر لے آتے تھے۔ یہاں ان کا دودھ دوہ کر سرکار دو عالمؐ اور سیدنا صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔
تین شب و روز کے بعد جب کائنات ارضی و سماوی کی یہ دو مقدس ہستیاں غار ثور سے روانہ ہونے لگیں تو حضرت عامرؓ بن فہیرہ بھی ان کے ہمرکاب ہوگئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں اپنے اونٹ کے پیچھے بٹھا لیا اور یوں سفر ہجرت میں انہیں اپنے آقا و مولاؐ کی معیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ ابن سعدؒ کا بیان ہے کہ جب اس مقدس قافلے نے قبا میں نزول اجلال فرمایا تو حضرت عامرؓ بن فہیرہ کو حضرت سعدؓ بن خیثمہ انصاری نے اپنا مہمان بنایا۔
ورودِ مدینہ کے چند ماہ بعد حضور اقدسؐ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخاۃ قائم کرائی تو حضرت عامرؓ بن فہیرہ کو حضرت حارثؓ بن اوس کا اسلامی بھائی بنایا۔ مکہ اور مدینہ کی آب و ہوا میں بہت فرق تھا، اس لیے مکہ سے آنے والے مہاجرین کو شروع شروع میں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی اور ان میں بعض اصحاب علیل ہوگئے۔ حضرت عامرؓ بن فہیرہ بھی ان میں شامل تھے۔ ان کی علالت نے شدت اختیار کی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ سرورِ دو عالمؐ کو مہاجرین کی علالت کی خبر ہوئی تو آپؐ نے یہ دعا فرمائی۔
’’الہٰی تو مکہ کی طرح یا اس سے بھی زیادہ مدینہ کو ہمارے لیے خوش گوار بنا دے اور اس کو بیماریوں سے پاک و صاف کر دے۔‘‘
محبوب رب العالمینؐ کی دعا قبول ہوئی۔ مہاجرین صحت یاب ہوگئے اور حضرت عامرؓ فہیرہ بھی بستر علالت سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
امام ابو جعفرؒ قید خانے میں:
امام ابو جعفر عبدالخالق عباسیؒ فضل و کمال کے ساتھ جرأت اور حق گوئی کی مجسم مثال تھے۔ بغداد اس وقت عیش و عشرت کا مرکز تھا۔ امام ابوجعفر اور علامہ ابو اسحاق شیرازی نے جامع مسجد میں تمام مسلمانوں کا عظیم الشان اجتماع کیا اور سلطنت سے حسب ذیل امور کی بزور تعمیل کی درخواست کی۔
’’شراب خانے اور دارالفواحش بند کیے جائیں، بدمعاش اور بد اخلاق لوگ شہر بدر ہوں۔ شراب کی بھٹیاں توڑ ڈالی جائیں، ایسے سکے ڈھالے جائیں جن میں بٹہ نہ لگے۔‘‘
خلیفہ نے ان تجاویز کو قبول کرلیا، لیکن عملاً ان کا اجرا سلجوتی سلطان کے ہاتھ میں تھا، اس کے بعد ایک ہنگامہ برپا ہوا، امام ابو جعفر نے پامردی سے اس میدان کو سر کیا۔ آخر حیلے سے وہ قصر خلافت میں بلائے گئے اور ایک حجرہ ان کی اقامت کے لیے مقرر ہوا، پہلے آنے جانے والوں کو اجازت ملنے کی تھی، اس کے بعد یہ حکم ہوا کہ صرف منتخب اشخاص آنے پائیں گے۔
امام نے کہا اگر یہ حکم ہے تو آج سے میں خود کسی سے نہ ملوں گا، پھر ان کی حیثیت ایک قیدی کی ہوگئی، حالت قید میں انہوں نے کھانا چھوڑ دیا اور مسلسل روزہ رکھنا شروع کردیا، عام مسلمانوں کو یہ خبر معلوم ہوئی تو انہوں نے شورش کی، حکام نے گھبرا کر رہا کردیا، لیکن اسی وقت روح بھی قید تن سے رہا ہوگئی۔ (معارف بحوالہ طبقات الحنابلہ ابن حبیب)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More