میئر کراچی سے گزارش!

0

سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں کراچی میں تمام شہری ادارے بشمول تمام کنٹونمنٹ بورڈز تجاوزات، غیر قانونی تعمیرات، چائنا کٹنگ کے ذریعے پارکوں، کھیل کے میدانوں اور رفاہی پلاٹوں پر قبضہ مافیا کی صفائی میں جتے ہوئے ہیں، نیز شہریوں کی آمدورفت میں رکاوٹ بننے والے کیبن، پتھارے اور ٹھیلوں کو بھی ہٹایا جا رہا ہے اور شہر میں تمام فٹ پاتھوں کو کلیئر کیا جا رہا ہے۔ سرکلر ریلوے اور ٹرام سروس کی بحالی کے لیے بھی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے آرڈرز جاری کر دیئے ہیں۔ کراچی شہر میں یہ مہم دس برس پہلے شروع ہو جاتی تو شہر کنکریٹ کا جنگل نہ بنتا۔ بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق آج جو آپریشن کلین اپ شروع کیا گیا ہے، وہ درست سمت میں جا رہا ہے۔ لازم ہے کہ مستقبل میں ایسی پیش بندی کی جائے، جس سے سیوریج اور برساتی نالوں پر تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات دوبارہ کھڑی نہ کی جائیں۔ مذکورہ مہم کے ضمن میں مجھے رفاہ عام ملیر سے ایک شاگرد رشید عطاء الرحیم صاحب نے اس درخواست کی عکسی نقل واٹس ایپ کی ہے، جو اہالیان علاقہ نے کے ایم سی کے انسداد تجاوزات سیل میں عملی اقدامات اٹھانے کے لیے جمع کرائی ہے۔ میں اپنے کالم میں وہ گزارش من و عن پیش کر رہا ہوں اور میئر کراچی سے درخواست کرتا ہوں کہ اینٹی انکروچمنٹ سیل کو ہدایات جاری فرمائیں، تاکہ اس علاقے کے عوام کی مشکلات دور کی جا سکیں۔
بخدمت جناب ڈائریکٹر انسداد تجاوزات سیل، کے ایم سی!
عالی قدر! آپ کی خدمت میں گزارش ہے کہ ہم اہالیان گلشن ملیر، باغ شیراز، الفیصل ٹائون، النور سوسائٹی، الفلاح ڈی اور صدیق گوٹھ کے رہنے والوں کو آمدورفت میں حائل مشکلات کو دور کیا جائے۔ ان علاقوں کے رہنے والے مین شارع فیصل تک جانے کے لیے وائرلیس گیٹ کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہاں6 سڑکیں ایسی ہیں جو اندرون رفاہ عام سے گزرتی ہیں اور بعدازاں 20 فٹ چوڑے روڈ بلال روڈ سے جاملتی ہیں۔ یہ روڈ ملیر ہالٹ اسٹیشن کی طرف حضرت غریب شاہ کے مزار اور مسجد کے سامنے سے گزرتی ہے۔ ان میں سے چھ سڑکوں کو سابق ناظم نے دیواریں تعمیر کرا کر بند کرا دیا تھا، جو کہ شہریوں کے حق راہ گزر کے قانون کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ مندرجہ بالا علاقوںکے رہائشیوں کو ان ضمنی سڑکوں کی بندش سے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ طویل اور سنسان راستے کو استعمال کے دوران سماج دشمن عناصر یہاں لوٹ مار اور راہزنی کی وارداتیں کرتے ہیں۔ خصوصاً خواتین اور اسکول و کالج جانے والی طالبات کو عذاب کی صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح مریضوں کو ایمرجنسی میں اسپتال لے جانے والی ایمبولینسوں کو بھی شدید مشکل درپیش ہوتی ہے… ان سڑکوں کی بندش سے مذکورہ علاقے عملی طور پر نوگو ایریاز بن کے رہ گئے ہں۔ اگر یہ سڑکیں کھول دی جائیں تو یہاں کے رہائشیوں کو ایک تکلیف دہ قید سے نجات مل جائے گی۔ امید ہے کہ میئر کراچی اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں گے۔
آپ کے مخلص، اہالیان علاقہ قارئین! کراچی ایک زمانے میں کھلا شہر تھا، اس کے گلی کوچے کشادہ تھے اور سڑکیں چوڑی اور مضبوط تھیں۔ ٹرانسپورٹ کے لیے بڑی بسیں، ٹرام اور سرکلر ریلوے کا شاندار سسٹم کام کرتا تھا۔ شہر میں کھیل کے میدان اور تفریحی پارکس عوام کو راحت کے لیے موجود تھے۔ ہماری بدنصیبی کہ 1980ء کے وسط سے کراچی شہر کا ستیاناسی دور شروع ہو گیا۔ کھیل کے میدانوں، پارکس اور ایس ٹی پلاٹوں پر چائنا کٹنگ کی کاشت سے دڑبے نما فلیٹس بنا کر شہریوں کو محبوس کر دیا گیا۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے ٹرام، سرکلر ریلوے اور بڑی اور کھلی محفوظ بسوں کی جگہ منی بسیں اور کوچز چلا دیں۔ آبادی کے دبائو، نام نہاد عوامی نیابت کاروں اور بدعنوان اور رشوت خور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے اس شہر کا گلا گھونٹ دیا۔ رہی سہی کسر واٹر اینڈ سیوریج سسٹم کی تباہی نے پوری کر دی اور تابوت میں آخری کیل بجلی کے نیٹ ورکس سسٹم کو کنڈہ کلچر نے برباد کر کے ٹھوک دی۔ اب تمام ادارے کوشاں ہیں کہ کراچی کو ایک مرتبہ پھر روشنیوں کا پرانا ورثہ لوٹا دیا جائے۔ میری گزارش ہے کہ اینٹی انکروچمنٹ مشن میں جن متاثرین کی حق تلفی ہورہی ہے، انہیں کاروبار یا رہائش کے لیے متبادل جگہ اور مالی امداد دی جائے۔ ساتھ ہی قانون مؤثر بہ ماضی کے تحت ان تمام افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے، جنہوں نے شہر کراچی کی شکل بگاڑنے کے لیے رشوت کھائی۔ تجویز ہے کہ شہر میں جاری انسداد تجاوزات کی مہم کی زد مین آنے والے افراد کو زرتلافی ان کرپٹ لوگوں سے دلوایا جائے، جن کی بدنیتی اور کرپشن سے شہر کراچی کی حالت دگرگوں ہوئی ہے۔ آخر میں میئر کراچی سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی مذکورہ درخواست پر عملدرآمد کے لیے فوری احکامات جاری فرمائیں، شکریہ۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More