مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

0

تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ کوئی حکمران اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اگر پچھلوں کی غلطیوں کا صحیح ادراک کرکے ان سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے مثبت سمت میں قدم بڑھایا جائے تو کوئی بھی حکمران کامیابی کی منازل طے کرتے تاریخ میں اپنے لئے نام پیدا کرنے کے علاوہ اپنی قوم کو بھی مشکلات و مسائل سے نجات دلا کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہوسکتا ہے۔ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں نے حکومتوں کو ڈبونے اور ملک و قوم کو تباہ کرنے میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں وہ حامی اور خوشامدی دربان زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، جو کسی حکمران کی تمام خامیوں، کمزوریوں اور خرابیوں کو نظر انداز کر کے اسے کوئی روحانی شخصیت باور کرانے کی کوشش کریں۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں میر جعفر و صادق کے سازشی کردار زیادہ پرانے نہیں ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان میں جسٹس منیر اور گورنر جنرل غلام محمد ابتدائی دور میں ہی سازشوں کے کردار قرار پائے۔ ان کے بعد کی اکثر حکومتیں بھی اندرونی شازشوں کے ذریعے ختم ہوئیں۔ سقوط مشرقی پاکستان کے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے تینوں سازشی کردار مکافات عمل کا شکار ہوئے اور میں کسی کو فطری موت نصیب نہیں ہوئی۔ دو قتل ہوئے اور تیسرا کردار اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود پھانسی کے پھندے تک پہنچ گیا۔ گزشتہ کئی عشروں سے ملک پر باری باری حکومت کرنے والی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے سربراہوں کو خاندان کے لوگوں اور دوستوں نے گھیر کر بالآخر ملکی اور قانون قدرت کے شکنجے میں کسوا رکھا ہے۔ اب ان کا کوئی اثر و رسوخ کام آتا ہے نہ لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے وہ نجات پا سکتے ہیں۔ ان پر ایک عذاب الٰہی یہ بھی ہے کہ انہیں اپنے کرتوتوں اور عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر کوئی ندامت ہی نہیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں رائے دہندگان نے تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہو کر پرانے کرپٹ حکمرانوں سے نجات پانے کا فیصلہ کیا اور تحریک انصاف کو آزمانے کا موقع دیا۔ عمران خان کی ذات اور پارٹی کے کئی رہنمائوں سے شدید اختلافات کے باوجود وزیر اعظم بنتے ہی انہوں نے ملک کو کرپشن سے پاک کرکے عوام کی ترقی و خوشحالی کا علان کرتے ہوئے یہ کہا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا عزم رکھتے ہیں تو اہل وطن خوشی سے نہال ہوگئے۔ عوام کو عمران خان کو آزمانے کا اس سے پہلے موقع نہیں ملا تھا۔ اس لئے انہوں نے نئے وزیر اعظم کی باتوں پر اعتبار کرلیا۔ لیکن اس مرتبہ بھی ملک اور اس کے غریب لوگوں کی بدقسمتی نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ تحریک انصاف اور اس کے سربراہ اقتدار سے قبل ہی یوٹرن اور قلابازیوں کی شہرت پا چکے تھے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد سے اب تک وہ اپنی حکومت کئی کوئی سمت ہی متعین نہیں کرسکے ہیں۔ جبکہ ان کی حکومت ہر روز عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ لادے چلی جارہی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ عمران خان نے یوٹرن کو اپنی مستقل پالیسی اور حکمت عملی قرار دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ دنیا کے تمام کامیاب سیاستدان اور حکمران بار بار یوٹرن لینے کی وجہ سے کامیاب رہے۔
پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کی بات پر یقین کرلینے والے سادہ لوح عوام نے عمران خان کے اس بیان پر شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کے خیال میں ہر مرتبہ کچھ دور جا کر پلٹ آنے والا انسان کبھی راہ راست اختیار نہیں کر سکتا۔ خط منحنی اور صراط مستقیم پر چلنا بالکل الگ اور متضاد طرز زندگی ہے۔ اس سے دنیاوی فلاح حاصل ہوسکتی ہے نہ اخروی زندگی میں کوئی مقام مل سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اردگرد جن گرگانِ باراں دیدہ اور کھلنڈرے نوجوانوں کو جمع کر رکھا ہے، وہ اپنے تجربات اور جذبات کے مطابق حکومت کو چلانے کے مشورے دینے کے علاوہ عمران خان کی خوشامد اور چاپلوسی میں لگے ہوئے ہیں، جو کسی بھی حکومت کو جلد از جلد ناکامی سے دوچار کرنے کا آزمودہ اور تاریخی حربہ ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما اور پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے عمران خان کو امام انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میری بات یاد رکھیں امریکا کے بعد پاکستان سپرپاور بنے گا۔ اس نظام کو سیاست کے ذریعے ٹھیک کرنے کی آخری امید عمران خان ہی ہیں۔ علی محمد خان نے مزید کہا کہ انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا۔ کاش وہ اپنے سربراہ اور رہنمائوں کو بھی یہ باور کرا دیں کہ اقتدار و اختیار کے مراحل سے گزرتے ہوئے وہ جس فخر و غرور میں مبتلا ہیں اور نہایت عیش کی زندگی گزار رہے ہیں، یہ سب چند روزہ ہے۔ آنکھ بند ہوتے ہی ان میں سے کچھ بھی کام نہ آئے گا۔ یہاں تک کہ اہل وعیال بھی مٹی تلے دبا کر چند روز میں بھول جائیں گے۔ حالیہ مثال قوم کے سامنے ہے کہ میاں نواز شریف اپنی اہلیہ اور مریم نواز اپنی ماں کلثوم نواز کو لندن کے ایک اسپتال میں چھوڑ کر پاکستان میں اپنا اقتدار واپس لانے اور لوٹی ہوئی دولت بچانے میں لگے رہے۔ تاریخ کی اس سے زیادہ ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ نواز شریف کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز نے محض دولت کی خاطر نہ صرف پاکستان سے قطع تعلق کرلیا، بلکہ اپنے انہتر سالہ بوڑھے باپ کو بھی جیل کی ہوا کھانے کیلئے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر پاکستان میں میاں نواز شریف کو صدمات اور مقدمات سے بچانے کیلئے کافی ہیں۔ یہ بھی حالیہ تاریخ ہی کا ایک قصہ ہے کہ کل تک مہاجروں کے ایک طبقے پر حکمرانی کا شوق پورا کرنے والا الطاف حسین آج نشان عبرت بنا ہوا ہے اور اس کا خوب شراب پی کر ’’اکیلی میںناچوں گی‘‘ والا حال ہوگیا ہے۔ موصوف کو بھی طویل عرصے تک اس زعم میں مبتلا رکھا گیا کہ (خدانخواستہ) اس سے بڑا ولی تو آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔اس کی شبیہ پتھروں اور تصویروں میں نظر آتی تھی اور شاید چاند پر بھی چرخہ چلانے والی کسی بڑھیا کا نہیں، بلکہ الطاف حسین کا چہرہ دکھائی دیتا تھا۔ اب اسی کی تقلید میں عمران خان کو امام انقلاب قرار دیا جا رہا ہے ۔ یاد رہے کہ قائد انقلاب کے مقابلے میں امام انقلاب کی اصطلاح پیش کرنے کا مقصد عمران خان کو اعلیٰ مرتبے کی روحانی شخصیت قرار دینے کی ناکام کوشش ہے۔ انہیں کوئی یاد دلائے کہ
نہ گورِ سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More